سوشل میڈیا (Social Media)
تخلیقِ انسانی کا مقصد
انسان کی پیدائش کا مقصد کیا ہے، اس کے تقاضے کیا ہیں اور مقصدِ حیات کو حاصل کرنے کے ذرائع کیا ہیں ؟ اس حوالہ سے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے متعدد مواقع پر اپنے خطباتِ جمعہ اور خطابات میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ایک خطبہ جمعہ میں حضورانور ایدہ اللہ نے احبابِ جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر یہ احسان عظیم ہے کہ انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر ایسا دماغ عطا فرمایا جس کے استعمال سے وہ خداتعالیٰ کی پیدا کردہ باقی مخلوق اور ہر چیز کو نہ صرف اپنے زیر نگیں کر لیتا ہے بلکہ اس سے بہترین فائدہ اٹھاتا ہے اور ہر نیا دن انسانی دماغ کی اس صلاحیت سے نئی نئی ایجادات سامنے لا رہا ہے۔ جو دنیاوی ترقی آج ہے وہ آج سے دس سال پہلے نہیں تھی اور جو دنیاوی ترقی آج سے دس سال پہلے تھی وہ20 سال پہلے نہیں تھی۔ اسی طرح اگر پیچھے جاتے جائیں تو آج کی نئی نئی ایجادات کی اہمیت اور انسانی دماغ کی صلاحیت کا اندازہ ہو تا ہے۔ لیکن کیا یہ ترقی جو مادی رنگ میں انسان کی ہے یہی اس کی زندگی کا مقصد ہے؟ ہر زمانے کا دنیا دار انسان یہی سمجھتا رہا کہ میری یہ ترقی اور میری یہ طاقت، میری یہ جاہ و حشمت، میرا دنیاوی لہو و لعب میں ڈوبنا، میرا اپنی دولت سے اپنے سے کم ترپر اپنی برتری ظاہر کرنا، اپنی دولت کو اپنی جسمانی تسکین کا ذریعہ بنانا، اپنی طاقت سے دوسروں کو زیر نگیں کرنا ہی مقصدِ حیات ہے۔ یا ایک عام آدمی بھی جو ایک دنیا دار ہے جس کے پاس دولت نہیں وہ بھی یہی سمجھتا ہے بلکہ آج کل کے نوجوان جن کو دین سے رغبت نہیں دنیا کی طرف جھکے ہوئے ہیں وہ یہی سمجھتے ہیں کہ جو نئی ایجادات جوہیں، ٹی وی ہے، انٹرنیٹ ہے، یہی چیزیں اصل میں ہماری ترقی کا باعث بننے والی ہیں اور بہت سے ان چیزوں سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ پس یہ انتہائی غلط تصور ہے۔ اس تصور نے بڑے بڑے غاصب پیدا کئے۔ اس تصور نے بڑے بڑے ظالم پیدا کئے۔ اس تصور نے عیاشیوں میں ڈوبے ہوئے انسان پیدا کئے۔ اس تصور نے ہر زمانہ میں فرعون پیدا کئے کہ ہمارے پاس طاقت ہے، ہمارے پاس دولت ہے، ہمارے پاس جاہ و حشمت ہے۔ لیکن اس تصور کی خداتعالیٰ نے جوربّ العالمین ہے، جو عالمین کا خالق ہے، بڑے زور سے نفی فرمائی ہے۔ فرمایا کہ جن باتوں کو تم اپنا مقصد حیات سمجھتے ہو یہ تمہارا مقصد حیات نہیں ہیں۔ تمہیں اس لئے نہیں پیدا کیا گیا کہ ان دنیاوی مادی چیزوں سے فائدہ اٹھاؤ اور دنیا سے رخصت ہو جاؤ۔ نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(الذاریات:57) اور مَیں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 15 ؍جنوری 2010ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 5 ؍فروری 2010ء)
ٹی وی اور انٹرنیٹ کےبے جا استعمال سے عبادات سے غفلت
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ النور کی درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی اور اس کا ترجمہ بھی بیان فرمایا:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ وَ مَنۡ یَّتَّبِعۡ خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ فَاِنَّہٗ یَاۡمُرُ بِالۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ رَحۡمَتُہٗ مَا زَکٰی مِنۡکُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ اَبَدًا ۙ وَّ لٰکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ (النور:22)
ترجمہ :اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو شیطان کے قدموں پر مت چلو۔ اور جو کوئی شیطان کے قدموں پر چلتا ہے تو وہ یقینا بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں کا حکم دیتا ہے۔ اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہو تو تم میں سے کوئی ایک بھی کبھی پاک نہ ہو سکتا۔ لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک کر دیتا ہے اور اللہ بہت سننے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔ ‘‘
بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے حوالہ سے اُن امور سے بچنے کی نصیحت فرمائی جو اِنسان کو اس کے مقصدِ حیات کے حصول(یعنی اپنے خالق کی عبادت کرنے) کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ حضورانور نے فرمایا:
’’ پس شیطان سے بچنے کے لئے تو گھروں میں ہی ایسے مورچے بنانے کی ضرورت ہے کہ اس کے ہر حملے سے نہ صرف بچا جائے بلکہ اس کے حملے کا اسے جواب بھی دیا جائے۔ شیطان کے پیار کو پیار سمجھ کر اسے زندگی میں داخل نہ کریں بلکہ ہر وقت استغفار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے۔ شیطان سے بچنے کی سب سے بڑی پناہ اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ پس اس بگڑے ہوئے زمانے میں استغفار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ استغفار ہی وہ ذریعہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں انسان آ سکتا ہے۔
کوئی انسان بھی جانتے بوجھتے ہوئے کسی برائی کی طرف نہیں جاتا۔ یہ فطرت کے خلاف ہے کہ ایک بات کا پتا ہو کہ اس سے نقصان ہونا ہے تو پھر بھی انسان اس چیز کو کرنے کی کوشش کرے۔ ایک حقیقی مومن کو تو اللہ تعالیٰ نے ویسے بھی کھول کر برائی اور اچھائی کے متعلق بتا دیا ہے۔ پس برائیوں اور اچھائیوں کی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق تلاش کر کے ان سے بچنے اور کرنے کی کوشش انسان کو کرنی چاہئے۔ شیطان کو علم ہے کہ جب تک انسان خدا تعالیٰ کی پناہ میں ہے، اس کے حصار میں ہے، اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اس لئے شیطان انسان کو اس پناہ سے نکال کر، اس قلعے سے نکال کر جس میں انسان محفوظ ہے پھر اپنے پیچھے چلاتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پناہ سے نکالنے کے لئے پہلے شیطان نیکیوں کا لالچ دے کر ہی انسان کو نکالتا ہے یا نیکیوں کا لالچ دے کر ہی ایک مومن کو اللہ تعالیٰ کی پناہ سے نکالا جا سکتا ہے۔ ‘‘
حضور انور ایدہ اللہ نے مزید فرمایا:
’’ برائیوں میں سے آجکل ٹی وی، انٹرنیٹ وغیرہ کی بعض برائیاں بھی ہیں۔ اکثر گھروں کے جائزے لے لیں۔ بڑے سے لے کر چھوٹے تک صبح فجر کی نماز اس لئے وقت پر نہیں پڑھتے کہ رات دیر تک یا تو ٹی وی دیکھتے رہے یا انٹرنیٹ پر بیٹھے رہے، اپنے پروگرام دیکھتے رہے، نتیجتاًصبح آنکھ نہیں کھلی۔ بلکہ ایسے لوگوں کی توجہ بھی نہیں ہوتی کہ صبح نماز کے لئے اٹھنا ہے۔ اور یہ دونوں چیزیں اور اس قسم کی فضولیات ایسی ہیں کہ صرف ایک آدھ دفعہ آپ کی نمازیں ضائع نہیں کرتیں بلکہ جن کو عادت پڑ جائے ان کا روزانہ کا یہ معمول ہے کہ رات دیر تک یہ پروگرام دیکھتے رہیں گے یا انٹرنیٹ پر بیٹھے رہیں گے اور صبح نماز کے لئے اٹھنا ان کے لئے مشکل ہو گا بلکہ اٹھیں گے ہی نہیں۔ بلکہ بعض ایسے بھی ہیں جو نماز کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے۔ نماز جو ایک بنیادی چیز ہے جس کی ادائیگی ہر حالت میں ضروری ہے حتیٰ کہ جنگ اور تکلیف اور بیماری کی حالت میں بھی۔ چاہے انسان بیٹھ کے نماز پڑھے، لیٹ کر پڑھے یا جنگ کی صورت میں یا سفر کی صورت میں قصر کر کے پڑھے لیکن بہرحال پڑھنی ہے۔ اور عام حالات میں تو مردوں کو باجماعت اور عورتوں کو بھی وقت پر پڑھنے کا حکم ہے۔ لیکن شیطان صرف ایک دنیاوی پروگرام کے لالچ میں نماز سے دُور لے جاتا ہے اور اس کے علاوہ انٹرنیٹ بھی ایک ایسی چیز ہے جس میں مختلف قسم کے جو پروگرام ہیں، پھر ایپلی کیشنز(applications) ہیں، فون وغیرہ کے ذریعہ سے یا آئی پیڈ(iPad) کے ذریعہ سے، ان میں مبتلا کرتا چلا جاتا ہے۔ اس پر پہلے اچھے پروگرام دیکھے جاتے ہیں۔ کس طرح اس کی attractionہے۔ پہلے اچھے پروگرام دیکھے جاتے ہیں پھر ہر قسم کے گندے اور مخر ّب الاخلاق پروگرام اس سے دیکھے جاتے ہیں۔ کئی گھروں میں اس لئے بے چینی ہے کہ بیوی کے حق بھی ادا نہیں ہو رہے اور بچوں کے حق بھی ادا نہیں ہورہے اس لئے کہ مرد رات کے وقت ٹی وی اور انٹرنیٹ پر بیہودہ پروگرام دیکھنے میں مصروف رہتے ہیں اور پھر ایسے گھروں کے بچے بھی اسی رنگ میں رنگین ہوجاتے ہیں اور وہ بھی وہی کچھ دیکھتے ہیں۔ پس ایک احمدی گھرانے کو ان تمام بیماریوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مومنین کو شیطان کے حملوں سے بچانے کی کس قدر فکر ہوتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح اپنے صحابہ کو شیطان سے بچنے کی دعائیں سکھاتے تھے اور کیسی جامع دعائیں سکھاتے تھے، اس کا ایک صحابی نے یوں بیان فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ دعا سکھلائی کہ اے اللہ! ہمارے دلوں میں محبت پیدا کر دے۔ ہماری اصلاح کر دے اور ہمیں سلامتی کی راہوں پر چلا۔ اور ہمیں اندھیروں سے نجات دے کر نور کی طرف لے جا۔ اور ہمیں ظاہر اور باطن فواحش سے بچا۔ اور ہمارے لئے ہمارے کانوں میں، ہماری آنکھوں میں، ہماری بیویوں میں اور ہماری اولادوں میں برکت رکھ دے اور ہم پر رجوع برحمت ہو۔ یقینا تُو ہی توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ اور ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر کرنے والا اور ان کا ذکر خیر کرنے والا اور ان کو قبول کرنے والا بنا اور اے اللہ ہم پر نعمتیں مکمل فرما۔ (سنن ابو داؤد کتاب الصلوٰۃ باب التشہد حدیث 969)
پس یہ دعا ہے جو دنیاوی غلط تفریح سے بھی روکنے کے لئے ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 20 ؍مئی 2016 ءبمقام مسجد گوٹن برگ، سویڈن)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍جون 2016ء)
خطباتِ جمعہ کے علاوہ بھی متعدد مواقع پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ٹیکنالوجی کے بے جااستعمال کو عبادت کی راہ میں حائل قرار دیا۔ چنانچہ وقفِ نو کی ایک کلاس میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کا خوف ہوگا تو محبت بھی ہوگی۔ خدا تعالیٰ تو کہتا ہے کہ تم میری راہ میں ایک قدم آگے بڑھاتے ہو تو مَیں دو قدم آگے بڑھاتا ہوں اور جب میری طرف کوئی چل کر آتا ہے تو مَیں اُس کی طرف دوڑے ہوئے جاتا ہوں۔ ‘‘
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مزید فرمایا کہ :
’’ اگر دنیا کی خواہشات بڑھ جائیں، TV ڈراموں اور انٹرنیٹ پر اتنے مگن ہوں کہ نمازوں میں تاخیر ہوجائے تو پھر خدا کی محبت پیدا نہیں ہوسکتی۔ اس محبت کے حصول کے لئے اپنی خواہشات کی قربانی کرنی پڑتی ہے۔ ‘‘(کلاس وقفِ نو 8 ؍ اکتوبر2011 ءبمقام مسجد بیت الرشید، جرمنی)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 6 ؍جنوری 2012ء)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کو اپنے ظاہری اخلاق کے ساتھ ساتھ حقوق اللہ کی ادائیگی کے معیار بھی بڑھانے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا:
’’بعض لوگ ان مغربی ممالک میں آکر دنیاداری کے ماحول کے زیر اثر دنیا کے ماحول میں زیادہ ڈوب گئے ہیں اور زبانی تو دین کو دنیا پر مقدّم رکھنے کا عہد کرتے ہیں لیکن حقیقت میں عمل اس سے مختلف ہیں۔ ہمارے احمدی یہاں کے لوگوں سے ملنے جلنے اور بہتر اخلاق غیروں کو دکھانے میں تو بہت بہتر ہیں۔ لیکن عبادت اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے وہ معیار نہیں ہیں جو ایک احمدی کے ہونے چاہئیں۔ …… ‘‘۔
بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کے حوالہ سے بعض اخلاقی کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں دُور کرنے کی تلقین فرمائی۔ نیز موجودہ زمانہ کی بعض ایجادات کے منفی استعمال پر تنبیہ کرتے ہوئے مشرکانہ مجالس سے بچنے اور دین کو دنیا پر مقدّم رکھنے کی نصیحت فرمائی۔ حضورانور نے ارشاد فرمایا:
’’ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بار بار اپنی جماعت کو نصیحت فرمائی ہے کہ انہیں کیسا ہونا چاہئے اور ان کے ایمان کی کیا حالت ہونی چاہئے۔ اس حوالے سے بھی مَیں آپ کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں تاکہ ہم میں سے ہرایک بیعت کا حق ادا کرنے والا بن جائے۔ آپ اپنی جماعت کو ایک بڑی ضروری نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’آجکل زمانہ بہت خراب ہو رہا ہے۔ قسم قسم کا شرک، بدعت اور کئی خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ بیعت کے وقت جو اقرار کیا جاتا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا یہ اقرار خدا کے سامنے اقرار ہے‘‘۔ غور کرنے والی بات ہے کہ یہ اقرار خدا کے سامنے اقرار ہے۔ ’’اب چاہئے کہ اس پر موت تک خوب قائم رہے ورنہ سمجھو کہ بیعت نہیں کی اور اگر قائم ہوگے تو اللہ تعالیٰ دین و دنیا میں برکت دے گا۔ ‘‘
فرماتے ہیں :’’اپنے اللہ کے منشاء کے مطابق پورا تقویٰ اختیار کرو۔ زمانہ نازک ہے۔ قہرِ الٰہی نمودار ہو رہا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے موافق اپنے آپ کو بنا لے گا وہ اپنی جان اور اپنی آل و اولاد پر رحم کرے گا۔ ‘‘ آجکل دنیا کے حالات جو بگڑ رہے ہیں اس پر غور کرتے ہوئے سب کو اللہ تعالیٰ کی طرف بہت زیادہ رجوع کرنا چاہئے۔ ……فرمایا کہ ’’بدی کی دو قسمیں ہیں۔ ایک خدا کے ساتھ شریک کرنا، اس کی عظمت کو نہ جاننا، اس کی عبادت اور اطاعت میں کسل کرنا۔ دوسری یہ کہ اس کے بندوں پر شفقت نہ کرنا، ان کے حقوق ادا نہ کرنے۔ اب چاہئے کہ دونوں قسم کی خرابی نہ کرو۔ خدا کی اطاعت پر قائم رہو۔ جو عہد تم نے بیعت میں کیا ہے اس پر قائم رہو۔ خدا کے بندوں کو تکلیف نہ دو۔ قرآن کو بہت غور سے پڑھو۔ اس پر عمل کرو۔ ہر ایک قسم کے ٹھٹھے اور بیہودہ باتوں اور مشرکانہ مجلسوں سے بچو۔ پانچوں وقت نماز کو قائم رکھو۔ غرض کہ کوئی ایسا حکمِ الٰہی نہ ہو جسے تم ٹال دو۔ بدن کو بھی صاف رکھو اور دل کو ہر ایک قسم کے بے جا کینے، بغض و حسد سے پاک کرو۔ یہ باتیں ہیں جو خدا تم سے چاہتا ہے۔ ‘‘(ملفوظات جلد5 صفحہ75 تا 76۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا مذکورہ بالا ارشاد پڑھنے کے بعد حضورانور ایدہ اللہ نے فرمایا:
اب یہ ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک اپنے آپ کو بیہودہ اور مشرکانہ مجلسوں سے بچایا ہوا ہے۔ بہت سے ایسے ہیں جو کہیں گے کہ ہم تو ایک خدا پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم تو مشرکانہ مجلسوں میں نہیں بیٹھتے۔ لیکن یاد رکھیں کوئی مجلس ہو جیسے انٹرنیٹ ہے یا ٹی وی ہے یا کوئی ایسا کام ہے اور مجلس ہے جو نمازوں اور عبادت سے غافل کر رہی ہے وہ مشرکانہ مجلس ہی ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 21 ؍اپریل 2017 ءبمقام فرینکفرٹ، جرمنی)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12 ؍مئی 2017ء)
سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے نتیجہ میں عبادات کا معیار اور دعاؤں کی قبولیت کس قدر متأثر ہوتی ہے، اس حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ایک اقتباس کی روشنی میں اپنے ایک خطبہ جمعہ میں وضاحت فرمائی۔ حضورانور نے فرمایا:
’’آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں :
’’دعاؤں میں جو رُو بخدا ہو کر توجہ کی جاوے تو پھر ان میں خارق عادت اثر ہوتا ہے۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دعاؤں میں قبولیت خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے آتی ہے اور دعاؤں کے لیے بھی ایک وقت(ہوتا ہے)جیسے صبح کا ایک خاص وقت ہے۔ اس وقت میں خصوصیت ہے وہ دوسرے اوقات میں نہیں۔ اسی طرح پر دعا کے لیے بھی بعض اوقات ہوتے ہیں جبکہ ان میں قبولیت اور اثر پیدا ہوتا ہے۔ ‘ ‘(ملفوظات جلد چہارم صفحہ309 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
ہر کام میں صبح کے وقت تازہ دم ہو کر جو کام انسان کرتا ہے اُس کے نتائج بہترین ہوتے ہیں۔ آجکل کے ان لوگوں کی طرح نہیں جو ساری رات یا رات دیر تک یا تو انٹرنیٹ پر بیٹھے رہتے ہیں یا ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں یا اور دنیاوی کاموں میں ملوث رہتے ہیں۔ اُن کی رات کو نیند پوری نہیں ہوتی۔ صبح اُٹھتے ہیں تو ادھ پچدّی نیند کے ساتھ، اُس میں نماز کیا ادا ہو گی؟ اور ان کے دوسرے کاموں میں کیا برکت پڑے گی۔ ہر شخص چاہے دنیا دار بھی ہو اپنے بہترین کام کے لئے تازہ دم ہو کر کام کرنے کی کوشش کرتا ہے تا کہ پوری توجہ سے کام ہو۔ اُس کام کے بہترین نتائج ظاہر ہوں۔ پس آپؑ نے فرمایاکہ اس طرح تمہیں یہ بھی تلاش کرنا چاہئے کہ تمہارے دعاؤں کے بہترین اوقات کیا ہیں ؟ وہ کیفیت کب پیدا ہوتی ہے جب دعا قبول ہوتی ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 15 ؍مارچ 2013 ءبمقام مسجد بیت الفتوح، لندن)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 5؍ اپریل 2013ء)
نماز فجر کی اہمیت اور اس نماز کی بروقت ادائیگی کی راہ میں حائل بعض رُکاوٹوں کا ذکر کرتے ہوئے حضورانور نے عبادات اور دنیاوی کاموں میں اعتدال قائم کرنے کی نصیحت اپنے ایک خطبہ جمعہ میں یوں فرمائی:
’’بچوں کو ماں باپ اگر فجر کی نماز کے لئے اُٹھائیں گے تواُن کو جہاں نماز کی اہمیت کا اندازہ ہو گا وہاں بہت سی لغویات سے بھی وہ بچ جائیں گے۔ جن کو شوق ہے، بعضوں کو رات دیر تک ٹی وی دیکھنے یا انٹرنیٹ پربیٹھے رہنے کی عادت ہوتی ہے، خاص طور پرویک اینڈ(weekend) پر تو نماز کے لئے جلدی اُٹھنے کی وجہ سے جلدی سونے کی عادت پڑے گی اور بلا وجہ وقت ضائع نہیں ہو گا۔ خاص طور پر وہ بچے جو جوانی میں قدم رکھ رہے ہیں، اُن کو صبح اُٹھنے کی وجہ سے ان دنیاوی مصروفیات کو اعتدال سے کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ بعض مجبوریاں بھی ہوتی ہیں، اچھی دیکھنے والی چیزیں بھی ہوتی ہیں، معلوماتی باتیں بھی ہوتی ہیں، اُن سے مَیں نہیں روکتا، لیکن ہر چیز میں ایک اعتدال ہونا چاہئے۔ نمازوں کی ادائیگی کی قیمت پر ان دنیاوی چیزوں کو حاصل کرنا انتہائی بےوقوفی ہے‘‘۔
اس کے بعد حضورانور نے مغربی ممالک میں رہنے والوں کو نمازوں کی ادائیگی اور خلیفۂ وقت کے ارشادات کو بغور سُننے اور اُن پر عمل کرنے کی گراں قدر نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’پس مَیں پھرکہتا ہوں کہ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ ان ملکوں میں رہنے والے دنیاوی مصروفیات کی وجہ سے نمازوں کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ گو اب تیسری دنیا میں بھی شہروں میں رہنے والوں کا یہی حال ہے۔ لیکن بہر حال پھر بھی کچھ نہ کچھ ایک ایسی تعداد ہے جو مسجدوں میں جانے والی ہے۔ باوجود اس کے کہ اسلام کے اس اہم دینی فریضہ کی طرف مَیں بار بار توجہ دلاتا ہوں، میرے سے پہلے خلفاء بھی اس طرف بہت توجہ دلاتے رہے۔ اب تو اس زمانے میں خدا تعالیٰ نے ہمیں ایم ٹی اے کی نعمت سے نواز دیا ہے۔ پہلے اگر خلیفۂ وقت کی آواز دنیا کے ہر خطے میں فوری طور پر نہیں پہنچ رہی تھی تو اب تو فوری طور پر یہ آواز اور اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کا پیغام ہر جگہ فوری طور پر پہنچ رہا ہے۔ اگر ہم میں سے بعض لوگ یا خطبات اور تقاریر نہیں سنتے یا سنتے ہیں اور بے دلی سے سنتے ہیں، ایک کان سے سنا اور دوسرے سے نکال دیا تو اُس عہدِ بیعت کو پورا کرنے والے نہیں ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا، جو بھی معروف فیصلہ فرمائیں گے، اُس کی پابندی کروں گا، اُس کی کامل اطاعت کروں گا۔ یہ اطاعت سے نکلنے والے عمل ہیں کہ ایک کان سے سنا اور دوسرے سے نکال دیا۔ یہ کامل فرمانبرداری سے دُور لے جانے والے عمل ہیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 22 ؍جون 2012ء بمقام مسجد بیت الرحمٰن واشنگٹن۔ امریکہ)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 13 ؍جولائی 2012ء)
برطانیہ میں خدام کے سالانہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدی نوجوانوں کو خصوصیت کے ساتھ یہی نصیحت فرمائی کہ وہ نماز کو اپنا نصب العین بنالیں۔ چنانچہ فرمایا :
’’خدام الاحمدیہ کے ممبران اپنی عمر کے ایسے حصہ میں ہوتے ہیں جس میں وہ جسمانی طور پر سب سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں اور اپنی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ کی فرض عبادتوں کی ادائیگی میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہئے اس لئے تمام خدام اور اطفال کو اپنی نمازوں میں باقاعدہ ہونا چاہئے اور جس حد تک ممکن ہوسکے نمازوں کو باجماعت ادا کرنا چاہئے۔ آپ میں ہر ایک نماز کے قیام کو اپنی زندگی کا نصب العین بنالے کیونکہ جنت کے دروازے خالص عبادت سے ہی کھولے جاتے ہیں۔ ‘‘(خطاب برموقع سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ یوکے26 ؍ستمبر2016ء بمقام کنگزلے، سرّے)(مطبوعہ ہفت روزہ بدر قادیان 7 ؍ستمبر 2017ء)