سوشل میڈیا (Social Media)
سوشل میڈیا کی افادیت
حضورانور ایدہ اللہ نےاپنے خطابات میں بارہا توجہ دلائی ہے کہ مواصلاتی ایجادات کو دین سے مضبوط تعلق قائم کرنے کے لئے استعمال کریں تاکہ علمی اور روحانی مائدوں سے فیضیاب ہوسکیں۔ یہی ذرائع دنیا کی سعید فطرت روحوں کو راستی کی طرف کھینچ کر اسلام کی آغوش میں لا رہے ہیں۔
MTAکی برکات
مسلم ٹیلی وژن احمدیہ انٹرنیشنل روحانی مائدوں کا ایک ایسا ذریعہ ہے جس کی برکات زمین کے کناروں تک وسیع ہیں۔ اس سے فیضیاب ہونے کے بارے میں حضورانور ایدہ اللہ نے نصائح کرتے ہوئے فرمایا:
’’ پس جس دَور میں سے ہم گزر رہے ہیں اور کسی ایک ملک کی بات نہیں بلکہ پوری دنیا کا یہ حال ہے۔ میڈیا نے ہمیں ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے اور بدقسمتی سے نیکیوں میں قریب کرنے کی بجائے شیطان کے پیچھے چلنے میں زیادہ قریب کر دیا ہے۔ ایسے حالات میں ایک احمدی کو بہت زیادہ بڑھ کر اپنی حالتوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایم ٹی اے عطا فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں جماعت کے روحانی، علمی پروگراموں کے لئے ویب سائٹ بھی عطا فرمائی۔ اگر ہم اپنی زیادہ توجہ اس طرف کریں تو پھر ہی ہماری توجہ اس طرف رہے گی جس سے ہم اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے والے ہوں گے اور شیطان سے بچنے والے ہوں گے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 20 ؍مئی2016 ءمسجد ناصر، گوٹن برگ، سویڈن)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍جون 2016ء)
سیّدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ آسٹریلیا منعقدہ دسمبر2015ءکے موقع پر احباب جماعت کو جو پیغام ارسال فرمایا، اُس کا اختتام ان الفاظ سے فرمایا:
’’ مَیں نے بار بار تمام دنیا کے احمدیوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ MTA پر جو پروگرام آتے ہیں ان کو دیکھیں۔ والدین بھی اس طرف توجہ کریں اور اپنی اولاد کو بھی ایم ٹی اے سے وابستہ کریں۔ یہ بھی ایک روحانی مائدہ ہے جو آپ کی روحانی بقا کا ذریعہ ہے۔ اس سے آپ کا دینی علم بڑھے گا۔ روحانیت میں ترقی ہو گی اور خلافت سے کامل تعلق پیدا ہو گا اور دنیا کے دوسرے چینلز کے زہریلے اثر سے بھی محفوظ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو میری ان نصائح پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین۔ ‘‘(پیغام برائے جلسہ سالانہ آسٹریلیا 24دسمبر 2015ء)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15؍جولائی 2016ء)
اسی طرح خاص طور پر لجنہ اماء اللہ کو ایم ٹی اے کی برکات سےبھرپور فائدہ اٹھانے کی تلقین کرتے ہوئےحضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر فرمایا:
’’جیسا کہ میں نے آج کہا ہے کہ ہم اپنی تعلیمات کو پھیلانے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کی مدد لے سکتے ہیں۔ MTA کے علاوہ جماعتی ویب سائٹس بھی ہیں جن پر علم اور معلومات سے بھر پور پروگرام اور کتابیں با آسانی دستیاب ہیں۔ آپ کو ان ذرائع کو استعمال میں لاتے ہوئے اپنے علم میں مستقل اضافہ کرنا چاہئے۔
لجنہ اماء اللہ کی ہر ممبر کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو ایم ٹی اے سے جوڑ دے اور باقاعدگی سے اس کے پروگرام دیکھیں۔ کم از کم اس بات کو یقینی بنائیں کہ میرا خطبہ جمعہ اور خلیفۃ المسیح کے دیگر پروگرام ضرور دیکھیں اور اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ اُن کے بچے بھی بیٹھ کر یہ پروگرام ضرور دیکھیں۔ جو بچیاں یہاں یوکے میں پلی بڑھی ہیں اُنہیں چاہئے کہ وہ بھی اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ ایم ٹی اے اور جماعتی ویب سائٹس سے منسلک رہیں۔ انہیں اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہئے کہ وہ خلیفۂ وقت کے پروگرام ضرور دیکھیں کیونکہ یہ ان کی روحانی اور اخلاقی تربیت کا باعث بھی ہونگے اور دین کے بارہ میں ان کا علم بھی بڑھے گا۔
دنیا کہ ہر حصہ کے لوگ ایم ٹی اے کے ذریعہ سچائی کو پہچان کر احمدیت کی آغوش میں آرہے ہیں۔ جیسا کہ کچھ عرصہ قبل فرانس کے نزدیک ایک نہایت ہی چھوٹے سے جزیرہ میں رہنے والے ایک شخص نے لکھا کہ اتفاق سے ایم ٹی اے دیکھنے کا موقع ملااور اس وقت میرا خطبہ نشر ہو رہا تھا۔ اس خطبہ میں مَیں نے وفات مسیح کا ذکر کیا تو اس کو سن کر اس شخص نے کہا کہ مجھے یقین ہوگیا ہے کہ یہ درست تعلیم ہے۔ پھر اس نے انٹرنیٹ پر جماعت کے متعلق ریسرچ کی اور youtube پر ہمارے پروگرام دیکھے اور اس کے بعد اس نے کہا کہ مجھے احمدیت کی سچائی کا یقین ہو گیا اور یوں اللہ کے فضل سے اس نے بیعت کرلی۔ ایسا ہی کئی خواتین ہیں جو ہماری جماعت میں شامل ہوئیں اور وہ اپنے ایمان پر بہت پختہ ہیں۔ ‘‘(اردو ترجمہ خطاب برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ یوکے25؍اکتوبر2015ء)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 25؍ مارچ 2016ء)
MTA۔ خلافت سے جوڑنے کا ذریعہ
مسلم ٹیلی وژن احمدیہ ایک نعمتِ عظمیٰ سے کم نہیں جس سے ہر ممکن فائدہ اٹھانا چاہئے۔ چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’اس زمانے میں جیسا کہ مَیں نے مثالیں بھی دی ہیں، بہت سی باتیں ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی طرف لے جاتی ہیں۔ اُن کا صحیح استعمال برا نہیں ہے، لیکن ان کا غلط استعمال برائیوں کے پھیلانے، غلاظتوں کے پھیلانے، گناہوں کے پھیلانے کا بہت بڑا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ لیکن یہی چیزیں نیکیوں کو پھیلانے کا بھی ذریعہ ہیں۔ ٹی وی ہے، معلوماتی اور علمی باتیں بھی بتاتا ہے لیکن بے حیائیاں بھی اس کی وجہ سے عام ہیں۔ اس زمانے میں ٹی وی کا سب سے بہتر استعمال تو ہم احمدی کر رہے ہیں یا جماعت احمدیہ کر رہی ہے۔ میں نے جلسوں کے دنوں میں بھی توجہ دلائی تھی اور اُس کا بعض لوگوں پر اثر بھی ہوا اور انہوں نے مجھے کہا کہ پہلے ہم ایم ٹی اے نہیں دیکھا کرتے تھے، اب آپ کے کہنے پر، توجہ دلانے پر ہم نے ایم ٹی اے دیکھنا شروع کیا ہے تو افسوس کرتے ہیں کہ پہلے کیوں نہ اس کو دیکھا، کیوں نہ ہم اس کے ساتھ جڑے۔ بعضوں نے یہ اظہار کیا کہ ہفتہ دس دن میں ہی ہمارے اندر روحانی اور علمی معیار میں اضافہ ہوا ہے۔ جماعت کے بارے میں ہمیں صحیح پتہ چلا ہے۔
پس پھر مَیں یاددہانی کروا رہا ہوں، اس طرف بہت توجہ کریں، اپنے گھروں کو اس انعام سے فائدہ اُٹھانے والا بنائیں جو اللہ تعالیٰ نے ہماری تربیت کے لئے ہمارے علمی اور روحانی اضافے کے لئے ہمیں دیا ہے تا کہ ہماری نسلیں احمدیت پر قائم رہنے والی ہوں۔ پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے آپ کو ایم ٹی اے سے جوڑیں۔ اب خطبات کے علاوہ اور بھی بہت سے لائیو پروگرام آرہے ہیں جو جہاں دینی اور روحانی ترقی کا باعث ہیں وہاں علمی ترقی کا بھی باعث ہیں۔ جماعت اس پر لاکھوں ڈالر ہر سال خرچ کرتی ہے اس لئے کہ جماعت کے افراد کی تربیت ہو۔ اگر افرادِ جماعت اس سے بھرپور فائدہ نہیں اُٹھائیں گے تو اپنے آپ کو محروم کریں گے۔ غیر تو اس سے اب بھرپور فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور جماعت کی سچائی اُن پر واضح ہو رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی توحید اور اسلام کی حقانیت کا اُنہیں پتہ چل رہا ہے اور صحیح ادراک ہو رہا ہے۔ پس یہاں کے رہنے والے احمدیوں کو بھی اور دنیا کے رہنے والے احمدیوں کو بھی ایم ٹی اے سے بھر پور استفادہ کرنا چاہئے۔ ایم ٹی اے کی ایک اور برکت بھی ہے کہ یہ جماعت کو خلافت کی برکات سے جوڑنے کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے۔ پس اس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 18 ؍اکتوبر2013 ءبمقام مسجد بیت الہدیٰ، سڈنی۔ آسٹریلیا)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 8؍ نومبر 2013ء)
احمدی بچیوں کی تربیت کے لئے حضورانور ایدہ اللہ نے بارہا ارشادات سے نوازا ہے۔ اسی حوالہ سے اپنے ایک پیغام میں فرمایا:
’’ لجنہ اماء اللہ بھی جماعت کی ذیلی تنظیموں میں سے ایک ہے جس کی آگے ایک شاخ ناصرات الاحمدیہ کہلاتی ہے جو پندرہ سال تک کی احمدی بچیوں کی تنظیم ہے۔ پس آپ خدا کے فضل سے جماعت کے مستحکم اور فعالی تنظیمی ڈھانچے کا حصہ ہیں جس کا کام اسلام اور احمدیت کی تعلیمات سے سب دنیا کو آگاہ کرنا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ کی دینی معلومات وسیع ہوں۔ اپنے عقائد سے بخوبی واقفیت ہو اور اسلامی تعلیمات کی پابند ی کرتی ہوں۔ مثلاً حیادار لباس پہنیں، کوٹ و برقع کی عمر ہو تو اس کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلیں۔ بیہودہ مجالس، غیراخلاقی دوستیوں اور انٹرنیٹ اور موبائل فون وغیرہ کی بُرائیوں سے خود کو بچا کر رکھیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب’’ کشتیٔ نوح‘‘میں بد رفیق اور خراب مجلسوں کو نہ چھوڑنے والوں کو بڑا سخت انذار فرمایا ہے۔ پس اس تعلیم کو ہمیشہ یاد رکھیں۔
ناصرات کی عمر تعلیم کی عمرہے۔ اپنی تعلیم پر خاص دھیان دیں اور بہتر مستقبل کے لئے محنت کریں اور دعاؤں سے کام لیں۔ آپ اپنی مصروفیات ایسی بنائیں جن سے آپ کی دین سے محبت ظاہر ہوتی ہو۔ مثلاً ہر جمعہ کو جب میرا خطبہ ایم ٹی اے پر نشر ہو تو اسے سننے کا اہتمام کریں۔ کچھ باتیں ساتھ ساتھ نوٹ بھی کریں تاکہ پوری توجہ خطبے کی طرف مرکوز رہے۔ جن باتوں کی سمجھ نہ آئےگھر میں کسی بڑے سے پوچھ لیں۔ اس سے آپ کا خلیفۂ وقت سے ذاتی تعلق قائم ہوجائے گا۔ دینی علم بڑھے گا۔ سوچ اور خیالات پاک ہوجائیں گے اور خدمتِ دین اور جماعتی پروگراموں میں شمولیت کا جذبہ تقویت پائے گا۔ یاد رکھیں کہ آپ جتنا اپنے آپ کو دین کے قریب رکھیں گی اتنا معاشرتی آلودگیوں سے محفوظ رہ سکیں گی۔ اسی سے سکونِ قلب عطا ہوگا۔ تبلیغ کریں گی تو بات میں اثر ہوگا۔ ‘‘(پیغام برائے لجنہ اماءاللہ جرمنی مطبوعہ سہ ماہی رسالہ ’گلدستہ‘20 ؍مارچ 2017ء)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 9 ؍جون 2017ء)
MTAکے ذریعہ تبلیغ
ایم ٹی اے کے ذریعہ جماعتی ترقیات کا بھی بیان ہوتا ہے اور دعوتِ الی اللہ کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے جس کے نتیجہ میں خواتین بھی فیضیاب ہورہی ہیں۔ اس ضمن میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر فرمایا:
’’مَیں نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے کام آسان کرنے کی بات کی ہے تو آج بھی چند مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ دنیا کے سینے کھول رہا ہے جن میں عورتیں بھی شامل ہیں۔ مَیں نے صرف چند عورتوں کی مثالیں لی ہیں جنہیں اللہ اُن لوگوں میں شامل فرما رہا ہے جو خیرِامّت بننے کا حق ادا کرنے کے لئے آگے بڑھ رہی ہیں۔
شام سے ہماری ایک حلوانی صاحبہ ہیں وہ اپنی خوابیں بیان کرتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ مَیں نے پہلی خواب میں علماء کا ایک مجموعہ دیکھا اور یوں لگتا ہے کہ وہ الحوارالمباشر میں (جو ہمارا ایم ٹی اے کا عربی کا پروگرام ہے) بیٹھے ہوئے ہیں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ بیدار ہونے کے بعد میرے ذہن میں صرف پنجاب کا لفظ محفوظ رہا جو میں نے اس سے قبل کبھی نہیں سُنا تھا۔ چنانچہ میں نے اپنی ایک احمدی سہیلی کو خواب سنانے کے بعد اِس لفظ کا مطلب پوچھا تو وہ بہت حیران ہوئیں۔ اس کے کچھ عرصے کے بعد مَیں نے ایک اور خواب میں ایک نور دیکھا جو ایک ایسے شخص کے حلیے میں تھا جو پگڑی پہنے ہوئے ہے اور دو زانو ہو کر بیٹھا ہے اور مجھے کہتا ہے کہ میں مہدی ہوں۔ جب میں بیدار ہوئی تو بہت خوش تھی اور میں نے بیعت کا اظہار کیا لیکن کسی وجہ سے میری بیعت لیٹ ہوگئی۔ کہتی ہیں تیسری خواب میں مَیں نے دیکھا کہ مَیں دن کے وقت آرام کی غرض سے لیٹی ہوئی ہوں اور ایک آواز مجھے مخاطب ہو کر کہتی ہے کہ مَیں تیسری دفعہ تمہیں کہہ رہا ہوں کہ مَیں مہدی ہوں۔ تمہیں کس کا انتظار ہے؟ اس کے بعد میری بیٹی نے مجھے جگایا اور میں حیران و پریشان تھی۔ چنانچہ مَیں نے جلد بیعت کر لی۔ ‘‘(خطاب برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ بمقام منہائم، جرمنی 17 ؍ستمبر 2011 ء)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16 ؍نومبر 2012ء)
ایک افریقی نوجوان کی ایم ٹی اے سے محبت اور اس سے استفادہ کرنے کے بارے میں حضورانور ایدہ اللہ بیان فرماتے ہیں :
’’مَیں آئیوری کوسٹ کے ایک شہر میں بسنے والے ایک نَوجوان Bassam نامی کی مثال پیش کرتا ہوں۔ اُس نے بتایاکہ وہ ایک غیر احمدی مسلمان تھا اور اُس کی اسلام میں بہت دلچسپی تھی۔ وہ غیر احمدیوں کی مساجد میں جایا کرتا تھا لیکن وہ مسلمان ذاتی رنجشوں میں ملوث رہتے۔ یہ دیکھ کر وہ بہت دل شکستہ ہو جاتا۔ اُسے بہت دُکھ ہوتا اور وہ اس بات پر بہت افسوس بھی کرتا تھا۔ کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُسے جماعت احمدیہ سے متعارف کروایا گیا۔ چنانچہ وہ اپنی نمازیں ہماری مسجد میں ادا کرنے لگ گیا اور لوکل درس القرآن بھی سنتا اور ساتھ ساتھ لوکل احمدیوں نے اُسے تبلیغ بھی کی۔ جلد ہی اس پر احمدیت کی سچائی ظاہر ہو گئی اور اُس نے بیعت کر لی۔ لیکن اُس نے صرف بیعت پر ہی اکتفا نہ کیا اور نہ ہی اُس نے فقط بیعت کرنا کافی سمجھا بلکہ وہ تندہی کے ساتھ لوکل مسجد میں ایم ٹی اے دیکھتا رہا اور ایم ٹی اے دیکھنے کے نتیجہ میں وہ اتنا متأثر ہوا کہ چند مہینوں میں ہی پیسے جمع کر کے اپنے گھر میں سیٹلائیٹ ڈِش لگوا لی۔ اُس نے بتایا کہ ہر پروگرام جو وہ جماعت احمدیہ کے بارہ میں دیکھتا اُس کے ایمان میں اضافہ کا باعث بنتا۔ گو کہ وہ فرانسیسی زبان بولتا ہے لیکن وہ ایسے پروگرام بھی دیکھتا جو فرانسیسی زبان میں نہیں تھے اور اُس نے ایم ٹی اے کا scheduleمکمل حفظ کرلیا تھا۔ اُس نے بتایا کہ میرے خطبات اُس کے لئے خاص طور پر اطمینانِ قلب کا باعث ہوتے اور اسی قسم کے دوسرے پروگرام بھی۔ پس ہر احمدی مسلمان کو ایم ٹی اے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت کو پہچاننا چاہئے اور اس کی ہرگز ناقدری نہیں کرنی چاہئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشگوئی کے مطابق دنیا مختلف ادوار سے گزری ہے اور اب اسلام اُس دائمی خلافت کے دَور میں داخل ہوا ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ اس لئے ہر احمدی کو چاہئے کہ وہ خلافت کے ساتھ اپنا بندھن اور تعلق مضبوط کرے اور آئیوری کوسٹ کے نَوجوان کے نمونہ پر چلے۔ اُس نے یہ بھی بتایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح کے خطبہ جمعہ یا حضرت خلیفۃ المسیح کے کسی پروگرام میں اُس نے کوئی ناغہ نہیں کیا اور ہر پروگرام دیکھا ہے۔ اُسے ہمیشہ ایسے نکات مل جاتے ہیں جو اُس کے ایمان میں مزید اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔ اس لئے ہر احمدی نو جوان کو اپنی ترجیحات کو تبدیل کرنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے اُس انعام کا حقیقی شکر گزار ہونا چاہئے جو اُس نے ہمیں ایم ٹی اے کی صورت میں دیا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم ایم ٹی اے کے ساتھ جُڑ جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف موضوعات پر مشتمل اور مختلف حالات و واقعات کی روشنی میں ایم ٹی اے شاندار پروگرامزتیار کر رہا ہے۔ آپ کو چاہئے کہ ان پروگراموں کو دیکھ کر مختلف معاملات پر اور مختلف مسائل پر اسلام کے نقطۂ نظر کو سمجھیں تاکہ آپ کے دینی علم میں بھی اضافہ ہو۔ اور اس طرح انشاء اللہ آپ کا اسلام اور جماعت سے بندھن بھی مضبوط ہو جائے گا۔ ‘‘(اردو ترجمہ خطاب برموقع نیشنل اجتماع خدام الاحمدیہ یوکے 14 ؍جون 2015 ء ٹلفورڈ)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 14؍اپریل 2017ء)
بے شمار دوسرے افراد کی طرح ایک عرب کی بھی اسلام احمدیت میں شمولیت کا باعث ایم ٹی اے بنا۔ حضورانور نے اُن کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’اُردن کے ایک احمد صاحب ہیں کہتے ہیں کہ ایم ٹی اے کے ذریعہ اُن کا جماعت سے تعارف ہوا اور اس پر پیش کئےجانے والے مفاہیم کو سن کر دلی طور پر مطمئن ہو کر انہوں نے خدا تعالیٰ سے رہنمائی کی دعا کی۔ اس دعا کے بعد وہ کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں ایک شخص کو دیکھا کہ وہ گھر کی چھت پر کھڑے ہوکر فجر کی اذان دے رہا ہے۔ اس نے اذان مکمل کرنے کے بعد کچھ اس طرح کہا کہ حیّ علی الاحمدیہ۔ حیّ علی الاحمدیہ یعنی احمدیت کی طرف آؤ۔ احمدیت کی طرف آؤ۔ مؤذن نےرؤیا میں اور بھی جملے کہے لیکن مجھے صرف یہی یاد رہے۔ عجیب بات ہے کہ جب میں جاگا تو محلے کی مسجد میں مؤذن فجرکی اذان دے رہا تھا۔ اس واضح رؤیا کے بعد میں نے بیعت کا فیصلہ کرلیا۔ چنانچہ اپنے بیٹوں اور دیگر اہلِ خانہ کے ساتھ میں نے بیعت کی۔ ‘‘(خطاب جلسہ سالانہ یوکے 13 ؍اگست 2016ء)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 20 ؍جنوری 2017ء)
ایم ٹی اے کے نتیجہ میں واقع ہونے والی ایک اور روحانی تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’گیمبیا کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ گاؤں مامت فانہ(Mamt Fanna) میں مولویوں کی وجہ سےجماعت کی شدید مخالفت ہوئی۔ گاؤں میں جن لوگوں نے احمدیت قبول کی تھی انہوں نے ایم ٹی اے لگوالیا اور پروگرام دیکھنے لگے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ احمدیت میں لوگوں کی دلچسپی بڑھنے لگی اور آہستہ آہستہ مخالفین بھی ایم ٹی اے کے پروگرام دیکھنے لگے اور لوگ جو جماعت کے شدید مخالف تھے جب خطبہ سنتے اور دیکھتے تو انہوں نے کہا کہ اس شخص کی مخالفت تو نہیں ہونی چاہئے اور کہتے ہیں اس جگہ پر 350 افراد نے احمدیت قبول کی۔
امیر صاحب گیمبیا لکھتے ہیں کی ’مامت فانہ‘ گاؤں میں ایک خاتون احمدی ہوئیں اور ایم ٹی اے کے پروگرام دیکھنے شروع کئے۔ موصوفہ کے خاوند احمدیت کے شدید مخالف تھے۔ انہوں نے گھر میں جماعت اور خلافت کے بارے میں بات کی تو وہ خاوند غصے میں آگیا اور کہا کہ آج کے بعد گھرمیں احمدیت کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوگی اور لوگوں کی موجودگی میں بیوی کو سخت بُرا بھلا کہا۔ موصوفہ نے حوصلے اور صبر کے ساتھ خاوند کی بات سن لی لیکن ثابت قدمی سے احمدیت کو تھامے رکھا اور مسلسل ایم ٹی اے دیکھتی رہیں۔ کچھ عرصے کے بعد خاوند نے بھی ایم ٹی اے دیکھنا شروع کردیا، چنانچہ اس کے نتیجہ میں ایک ماہ کے بعد موصوفہ کے خاوند نے بھی احمدیت قبول کرلی‘‘۔ (خطاب جلسہ سالانہ یوکے 22؍ اگست 2015ء)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12؍ فروری 2016ء)
’’مخالفت جماعتی ترقی میں روک نہیں بن سکتی‘‘
مخالفینِ احمدیت کتب و رسائل پر پابندی لگاکر احمدیت کی تبلیغ روک دینے کا گمان کرلیتے ہیں۔ لیکن میڈیا کے دیگر ذرائع سے خداتعالیٰ احمدیت کی آواز کو زمین کے کناروں تک پہنچاتا چلا جا رہا ہے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے پنجاب حکومت کی طرف سے کی جانے والی ایک معاندانہ کارروائی کا ذکرکرتے ہوئے یہ حقیقت یوں بیان فرمائی ہے:
’’گزشتہ جمعہ میں مَیں نے بتایا تھا کہ پنجاب حکومت نے جماعت کے بعض جرائد اور کتب پر پابندی لگائی ہے کہ ان کی اشاعت نہیں ہو سکتی یا ڈسپلے(display) وغیرہ نہیں ہو سکتا اور اس بات کی وہاں کی بعض اخبارات نے خبریں بھی دیں۔ آجکل فون پر ہی تصویری عکس، میسیجز(messages) اور مختلف قسم کے پیغام بھیجنے کے جو طریقے ہیں ان کے ذریعہ سے منٹوں میں خبریں دنیا میں گردش کر جاتی ہیں۔ یہ سن کے، دیکھ کے مجھے بھی لوگ خط لکھتے ہیں۔ فیکس وغیرہ کے ذریعہ سے پریشانی کا اظہار کرتے ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ باتیں کوئی نئی چیز نہیں ہیں۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ان نام نہاد علما ءکے کہنے پر اسی طرح کی حرکتیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہتی ہیں۔ اور ابتدا سے ہی جب سے کہ جماعت احمدیہ قائم ہے اس قسم کی حرکتیں یہ لوگ کرتے چلے آ رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ ان حرکتوں سے نہ پہلے کبھی جماعت کو نقصان پہنچا اور نہ انشاءاللہ تعالیٰ آئندہ کبھی پہنچے گا۔ نہ ہی یہ پہنچا سکتے ہیں۔ نہ ہی کسی ماں نے وہ بچہ جنا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خدائی مشن کو ان باتوں سے روک سکے۔ ان علماء نام نہاد علماءاور ان کی طرف دیکھنے والی حکومتوں کو احمدیت کی ترقی دیکھ کر حسد کے اظہار کا کوئی بہانہ چاہئے۔ اس حسد میں یہ اتنے اندھے ہیں کہ ان کی عقل پر بالکل پردے پڑ جاتے ہیں۔ بظاہر پڑھے لکھے لوگ جاہلوں سے بڑھ کر اپنی حالتوں کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ کبھی انہوں نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ یہ دیکھیں کہ اسلام کی حقیقی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور مقام کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کس طرح بیان فرمایا ہے اور جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں یہ سب کچھ کس خوبصورتی سے پیش کیا جاتا ہے۔ انصاف پسند مسلمان جو ہیں، عربوں میں سے بھی اور دوسری قوموں میں سے بھی جب یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے، جب جماعت کا لٹریچر دیکھتے ہیں، کتب دیکھتے ہیں اور پھر پتا لگتا ہے کہ حقیقت کیا ہے تو حیران ہوتے ہیں کہ ان نام نہاد علماءنے جو اپنے آپ کو اسلام کا علمبردار سمجھتے ہیں کس طرح جھوٹ اور فریب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خیالات کو، تعلیمات کو، آپ کی تحریرات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے اور کرتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کی شان کو کس طرح بیان فرمایا ہے ہمارے ایم ٹی اے کے جو لائیو ٹی وی پروگرام ہوتے ہیں ان میں بھی اور خطوط کے ذریعہ سے بھی اکثر لوگ جو ابھی احمدی نہیں ہوئے اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہمیں اس مقام اور اس شان کا اب پتا لگا ہے۔ نہیں تو ان علماءنے تو ہمیں جہالت کے پردے میں رکھا ہوا تھا۔ لوگوں پر یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ احمدیت کی دشمنی میں یہ لوگ شعوری طور پر یا لاشعوری طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے نام پر حرف لانے کا باعث بن رہے ہیں۔
بہر حال ان علماء کا تو دین ہی دشمنی اور فساد ہے۔ اس لئے کبھی یہ کوشش نہیں کریں گے کہ ہم حقیقت معلوم کریں چاہے اس کی وجہ سے سادہ لوح مسلمانوں میں جتنا بھی بگاڑ پیدا ہو جائے۔ بہرحال یہ تو ان کے کام ہیں یہ کرتے رہیں گے اور کرتے چلے جائیں گے کیونکہ ان کو دین سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات پیارے ہیں لیکن ہمیشہ کی طرح ان مخالفین کے یہ عمل ہمارے ایمانوں میں جلاءپیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تعلق میں بڑھنے کے لئے کھاد کا کام دینے والے ہونے چاہئیں۔ اگر ہماری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنے کی طرف توجہ کم تھی تو اب زیادہ توجہ پیدا ہونی چاہئے۔
ایک پنجاب کی حکومت کی روک سے تو کیا تمام دنیا کی حکومتوں کی روکوں سے بھی یہ کام نہیں رک سکتا کیونکہ یہ انسانی کوششوں سے کئے جانے والے کام نہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں۔ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو علم و معرفت کے خزانوں کے ساتھ بھیجا ہے اور کامیابی کا وعدہ فرمایا ہے۔ ہمیشہ ہم نے یہی دیکھا ہے کہ بڑی بڑی روکوں اور مخالفتوں کے بعد جماعت کی ترقی زیادہ ابھر کر سامنے آئی ہے۔ اپنے زعم میں ہمارے خلاف جو یہ قدم اٹھایا گیا ہے یہ تو ایک معمولی سی روک ہے۔ ہمیں تو جتنا دبایا جائے اتنا ہی اللہ تعالیٰ اپنےفضلوں کو بڑھاتا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ اب بھی بہتر ہوگا۔ اس لئے کوئی فکرکی بات نہیں ہے۔ اس لئے زیادہ فکر اور پریشانی کی ضرورت نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب اب تو دنیا کے اور ممالک میں بھی چھپ رہی ہیں۔ ویب سائٹ پر بھی میسر ہیں۔ آڈیو میں بھی بعض کتب میسر ہیں اور باقی بھی انشاءاللہ تعالیٰ جلدی مہیا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ایک زمانہ تھا جب یہ فکر تھی کہ اشاعت پر پابندی سے نقصان ہو سکتا ہے۔ اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ علم و معرفت کے جو خزانے ہیں یہ فضاؤں میں پھیلے ہوئے ہیں جو ایک بٹن دبانے سے ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام اور کتب سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ ایم ٹی اے پر بھی میں نے اب سوچا ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا درس پہلے سے زیادہ وقت بڑھا کر دیا جائے گا اور اس طرح پاکستان کے ایک صوبے کے قانون کی وجہ سے دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کا فائدہ ہو جائے گا۔ ہر جو روک ہوتی ہے، مخالفت ہوتی ہے ہمیں فائدہ پہنچاتی ہے۔ نئے راستوں اور ذرائع کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔ اور پھر یہ بھی ہو گا انشاءاللہ تعالیٰ کہ اس سے نہ صرف اصل زبان میں کتابیں چھپیں گی یا درس ہوں گے بلکہ بہت ساری قوموں کی مقامی زبانوں میں بھی یہ مواد میسر آجائے گا۔ پس جن کے دلوں میں کسی بھی قسم کی پریشانی ہے کیونکہ لوگ لکھتے ہیں اس لئے مجھے کہنا پڑ رہا ہے وہ اپنے دلوں سے نکال دیں۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍مئی 2015ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 5 ؍جون 2015ء)
رسالہ ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘کے ذریعہ اسلام کا پیغام
انگریزی دان طبقہ میں اسلام کی اشاعت کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو رسالہ(اردو اور انگریزی) دونوں زبانوں میں 1902ء میں قادیان سے جاری فرمایا تھا، وہ آج اسلام کے نُور کو پرنٹ میڈیا کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ بھی دنیابھر کے(انگریزی، جرمن اور فرنچ زبانوں کے) اہلِ علم حضرات کے سامنے پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے۔ اس رسالہ کا ذکر کرتے ہوئے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے ایک خطاب میں فرماتے ہیں :
’’ریویو آف ریلیجنز(Review of Religions)جس کا اجراء حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے 1902ء میں فرمایا تھا اور اب اس کو 114 سال ہوگئے ہیں۔ اب اس کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جدید زمانے کے مختلف طریق اور ذرائع استعمال کرتے ہوئے تقریباً ایک ملٹی پلیٹ فارم پر لے آیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس رسالے کے پرنٹ ایڈیشن، ویب سائٹ، سوشل میڈیا، یوٹیوب اور دیگر نمائشوں کے ذریعہ ایک کثیر تعداد تک اسلام کا پیغام پہنچایا جارہا ہے۔ ان مختلف پلیٹ فارمز کے ذریعہ دس لاکھ سے زائد لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچاہے۔ ‘‘(خطاب جلسہ سالانہ یوکے 13 ؍اگست 2016 ءبمقام حدیقۃ المہدی، آلٹن)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 20؍جنوری 2017ء)
’’الاسلام ڈاٹ آرگ‘‘ – اشاعت ِاسلام کا ذریعہ
’’الاسلام ڈاٹ آرگ‘‘(alislam.org) ایک ایسی ویب سائٹ ہے جس میں مختلف زبانوں میں تمام ضروری تبلیغی اور تربیتی مواد یکجا کرکے پیش کردیا گیا ہے۔ اس کی افادیت کا اندازہ صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو اس سے استفادہ کرتے رہتے ہیں۔ اس ویب سائٹ کو رضاکاروں کی ایک ٹیم ہمہ وقت بہتر سے بہتر بنانے کے لئے سرگرم عمل رہتی ہے۔ چنانچہ ایک خطبہ جمعہ میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے حضورانو ر ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’ایک اور بات جس کا مَیں آج اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ مَیں نے یہ بات قادیان کے جلسے کے اختتام پر بتانی تھی کہ alislamجو ہماری ویب سائٹ ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے ایک نیا اضافہ کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روحانی خزائن کے نام سے جو کتب ہیں اُن سب کو ایک ایسے سرچ انجن(search engine)میں ڈالا ہے جس میں اگر آپ نے تلاش کرنا ہے تو آپ کوئی بھی لفظ، مثلاً اللہ کا نام ہے، یسوع مسیح کا نام ہے، محمدؐ کا نام ہے اس میں ڈالیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں، اُن کتب میں جو روحانی خزائن کی جلدوں میں ہیں جہاں بھی وہ نام استعمال ہوا ہے، وہ نام اور اقتباس سامنے آ جائیں گے۔ اور پھر اسے آپ سرچ کر کے جو انٹرنیٹ سے دلچسپی رکھنے والے یا alislamدیکھنے والے ہیں وہ مزید صفحہ بھی دیکھ سکتے ہیں جو اصل کتاب کا صفحہ ہے۔ تو یہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہے اور یہ بہت مشکل کام تھا۔ اللہ کے فضل سے ہمارے نوجوانوں کی ٹیم نے یہ کیا ہے۔ ‘‘
مزید فرمایا:
’’تو یہ ایک بہت بڑا کام ہے جو انہوں نے کیا ہے۔ دیکھنے والے تو اتنا محسوس نہیں کرتے۔ ہر کتاب کو پڑھنا، ہر کتاب میں سے ہر لفظ کو تلاش کرنا اور پھر اس کا انڈیکس بنانا، پھر اس انڈیکس کے اقتباسات، پھر اس کے صفحے کا پروگرام بنانا ایک کافی بڑا کام تھا جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان نوجوانوں نے کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے اور دنیا اس سے فائدہ اٹھانے والی ہو۔
معترضین تو آجکل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پر اعتراض کرتے رہتے ہیں لیکن اگر دیکھیں تو یہی ایک خزانہ ہے جو دنیا کی اصلاح کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن جن پر اثر نہیں ہونا وہ لوگ تو قرآنِ کریم کی آیات کا بھی استہزاء اڑاتے تھے، اُن پر اثر نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو عقل اور سمجھ دے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 31 ؍دسمبر2010 ءبمقام مسجد بیت الفتوح، لندن)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 21؍جنوری 2011ء)
خطبہ جمعہ۔ ایک روحانی مائدہ
مجلسِ شوریٰ جماعتِ احمدیہ یوکے کے اختتامی خطاب میں سیّدناحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے شوریٰ اراکین کو ایم ٹی اے سے زیادہ سے زیادہ مستفیذ ہونے کی تلقین کرتے ہوئے خاص طور پر خطبہ جمعہ باقاعدگی سے سننے کی نصیحت فرمائی۔ حضورانور ایدہ اللہ نے فرمایا:
’’ایک اور بات جس کی طرف مَیں عہدیداران اور نمائندگان مجلسِ شوریٰ کو خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ انہیں اور ان کے افرادِ خانہ کو جتنا زیادہ ممکن ہوسکے MTAسے استفادہ کرنا چاہئے۔ بلکہ آپ لوگ دیگر دوستوں کو بھی MTAسے فائدہ اٹھانے کی تلقین کریں۔ ابتدائی طور پر آپ ایسا کرسکتے ہیں کہ روزانہ کچھ نہ کچھ وقت MTAپر اپنی دلچسپی کے پروگرامز دیکھنے کے لئے مخصوص کرلیں۔ مثلاً ایسے دوست جو انگریزی پروگرام سننا پسند کرتے ہیں ان کے لئے بعض بہت عمدہ انگریزی پروگرامز ہیں جو روزانہ کی بنیادوں پر MTAسے نشر کئے جاتے ہیں۔ انہیں وہ پروگرامز باقاعدگی سے دیکھنے چاہئیں ‘‘۔
سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ لوگ ہر جمعہ کو نشر ہونے والا خطبہ جمعہ باقاعدگی سے سنیں۔ اور دیگر ایسے پروگرامز بھی دیکھیں جن میں میری شمولیت ہوتی ہے جیسا کہ غیر مسلموں سے خطابات ہیں، جلسہ پر کی جانے والی میری تقریریں ہیں یا دیگر مجالس وغیرہ۔ ان پروگرامز کو دیکھناانشاء اللہ آپ لوگوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہوگا اور اسی مقصد سے آپ لوگوں کو یہ پروگرامز دیکھنے چاہئیں۔ (اردو ترجمہ از اختتامی خطاب مجلسِ شوریٰ یوکے 16 ؍جون 2013 ءبمقام مسجد بیت الفتوح، لندن)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 25 ؍اکتوبر 2013ء)
نیشنل اجتماع واقفینِ نَو جماعت احمدیہ برطانیہ کے موقع پر حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اختتامی خطاب میں مختلف امور سے متعلق زرّیں نصائح ارشاد فرمائیں۔ اس خطاب میں حضورانور نےخطباتِ جمعہ سے استفادہ کرنے کی نصیحت خاص طور پر فرمائی کیونکہ اس کے ذریعے احباب جماعت کا خلیفۂ وقت سے ایک مضبوط تعلق قائم ہوسکتا ہے۔ حضورانور نے ارشاد فرمایا:
’’ آپ کا اس بات پر بھی کامل ایمان ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس دَور میں یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دَور میں تکمیلِ اشاعتِ اسلام کے ذرائع اور وسائل پیدا کئے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں دین مکمل ہو چکا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خاتم البنیین تھے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام نبیوں کی مُہرتھے۔ لیکن اسلام کے پیغام کو تمام دنیا میں پھیلانے کے وسائل اور ذرائع ابھی ظہور میں نہیں آئے تھے۔ مثلاً میڈیا یا اَور دوسرے ذرائع جن سے پیغام کوپھیلایا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے دَور میں ایسے ذرائع اور وسائل مہیا ہو گئے ہیں جیسا کہ میڈیا، ٹیلی وژن، پریس وغیرہ جن سے اسلام کے پیغام کی دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک تشہیر ممکن ہو گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل کے ساتھ آج جماعت احمدیہ کو بھی یہ ذرائع عطا فرمائے ہیں تاکہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کو دنیا میں پھیلایا جاسکے۔ اس لئے ہر فرد جماعت کا یہ فرض ہے چاہے وہ دنیا کے کسی خطہ کا باشندہ ہو کہ وہ ان جدیدوسائل کا بھر پور اور صحیح طریق پر استعمال کرے۔ افراد جماعت کو چاہئے کہ وہ پوری کوشش کریں کہ اسلام کا پیغام ہر سمت میں اور دنیا کے ہر خطہ میں پہنچ جائے۔ اور اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کے بھی وارث ٹھہریں گے جو اللہ تعالیٰ نے اس دَور میں جماعت احمدیہ کے ساتھ منسوب کر دئیے ہیں۔ ‘‘
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطباتِ جمعہ سے براہ راست استفادہ کرنے کے لئے نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کا ذکر کرتے ہوئے مزید فرمایا:
’’اس کے علاوہ آپ میں یہ کامل اور غیر متزلزل اور ہر شک و شبہ سے پاک یقین ہونا چاہئے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے وصال کے بعد اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشگوئیوں کے مطابق سچی اور حقیقی خلافت کا نظام قائم کیا جا چکا ہے جس کی کامل اطاعت اور پیروی آپ پر فرض ہے۔ خلافت کی اطاعت اور خلیفۂ وقت کی ہدایات کی تعمیل کا ایک بہت اہم ذریعہ اللہ تعالیٰ کے ایک عظیم فضل و احسان کی صورت میں قائم کیا ہوا ذریعہ ہے۔ اور وہ ایم ٹی اے ہے۔ اس لئے آپ جہاں کہیں ہوں آپ کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے کہ میرا ہر خطبہ ضرور سنیں خواہ وہ کسی بھی ذریعہ سے ہو۔ چاہے وہ ٹیلی وژن کے ذریعہ ہو، laptopکے ذریعہ ہویا آپ کے موبائل فون کے ذریعہ ہو۔ اِس دَور میں کوئی بھی یہ جائز عذر نہیں کر سکتا کہ وہ پیغام یا تعلیمات کو موصول کرنے سے قاصر رہا ہے۔ نشر و اشاعت کے جدید وسائل کی بدولت اب ہر چیز تک رسائی باآسانی اور فورًا ایک بٹن کے دبانے سے ممکن ہوچکی ہے۔ اس لئے جہاں تک میرے خطبات کا تعلق ہے ان تک بھی آپ کی رسائی اور دسترس مختلف ذرائع سے ہو سکتی ہے۔ آپ میرے خطبات ایم ٹی اے پر سن سکتے ہیں یا اس کے علاوہ آپ ایم ٹی اے کی ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں اور ایم ٹی اے کی on demand سروس کے ذریعہ بھی میرے خطبات کو سن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایم ٹی اے کے کئی دوسرے پروگرامز بھی آپ کے لئے دیکھنا بہت ضروری ہیں۔ ان پروگراموں کے ذریعہ آپ کا دینی علم بڑھے گا اور اس طرح آپ کا خلافت سے بھی تعلق پختہ اور مضبوط ہوگا۔ اپنے دینی علم کو بڑھانے کا ایک اور ذریعہ alislamویب سائٹ بھی ہے جہاں وسیع پیمانے پر علمی مواد میسر ہے۔ آپ میں سے جو پختہ عمر کو پہنچ گئے ہیں انہیں جہاں تک بھی ممکن ہو اپنے آپ کو ان تمام مختلف وسائل اور ذرائع سے جوڑ دینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ایسا کرتے ہوئے جہاں آپ اپنے علم کو بڑھا رہے ہوں گے وہاں آپ کو چاہئے کہ اِن ذرائع کو خلافت کے ساتھ بھی اپنے تعلق کو مضبوط کرنے کے لئے استعمال میں لائیں۔ اور اپنی اس ذمہ داری کو نبھائیں کہ آپ دین کو دنیا کی ہر چیز پر مقدم رکھیں گے۔ اس دَور میں بیشمار ایسے پروگرام ہیں جو ٹی وی، ویب سائٹس اور انٹرنیٹ وغیرہ پر دستیاب ہیں جو ایک انسان کی توجہ مسلسل اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ ان کااستعمال ایک لامتناہی کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ اگر آپ یہ کہیں گے کہ ہمیں پہلے اپنے دنیاوی کاموں کو مکمل کرنا ہے اور پھر ٹی وی پر یا streaming کے ذریعہ ایم ٹی اے دیکھیں گے تو آپ کو کبھی ایم ٹی اے دیکھنے کا وقت نہیں ملے گا۔ یہ وسائل اور ذرائع آپ کے علم کو بڑھانے میں فائدہ مند ثابت ہوں گے لیکن اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے آپ کو بہرحال اپنے دین کو مقدّم رکھنا ہو گا۔ اور اپنی دنیوی مصروفیات اور پروگراموں پر دین کو ترجیح دینی ہو گی۔ ‘‘(نیشنل اجتماع واقفینِ نَو جماعت احمدیہ برطانیہ یکم مارچ 2015ء)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 22؍جولائی 2016ء)
خلافتِ احمدیہ کے ساتھ احباب جماعت کا ایم ٹی اے کے ذریعہ عالمی سطح پر جو مضبوط تعلق اُستوار ہورہا ہے، اس کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا:
’’اس زمانہ میں تو اللہ تعالیٰ نے اَوربھی آسانی ہمارے لئے پیدا فرمادی ہے۔ ایک تو اپنی تربیت اور خلافت سے مضبوط تعلق کے لئے ہر احمدی کو ایم ٹی اے سننے کی ضرورت ہے اس کی عادت ڈالنی چاہئے۔ دوسرے تبلیغ کے لئے جو ایم ٹی اے اور ویب سائٹ پر پروگرام ہیں وہ بھی دوسروں کو بتانے چاہئیں۔ اپنے دوستوں کے ساتھ بعض دفعہ موقع ملتا ہے تو بیٹھ کے دیکھنے چاہئیں۔ دوستوں کو ان کا تعارف کروانا چاہئے۔ بہت سارے خط مجھے ابھی بھی آتے ہیں کہ جب سے ہم نےایم ٹی اے پر کم از کم خطبات ہی باقاعدہ سننے شروع کئے ہیں ہمارا جماعت سے مضبوط تعلق ہورہا ہے۔ ہمارے ایمانوں میں مضبوطی پیدا ہورہی ہے۔ پس آجکل ایم ٹی اے اور اسی طرح alislamکی جو ویب سائٹ ہے، یہ بڑا اچھا ذریعہ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تبلیغ کو بھی پہنچانے کا ذریعہ ہیں اور ہر احمدی کی تربیت اور خلافت سے جوڑنے اور جماعت سے جوڑنے کا بھی ذریعہ ہیں۔ پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس کے ساتھ جُڑنے کی کوشش کریں ‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 4؍ مارچ 2016ء مسجد بیت الفتوح، لندن)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 25؍مارچ 2016ء)
احبابِ جماعت کو اپنی اصلاح اور عملی حالتوں کوبہتر بنانے کے حوالہ سے خطباتِ جمعہ کی افادیت بیان کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں یوں نصیحت فرمائی:
’’بیشک جیسا کہ میں نے کہا، خلفائے احمدیت عملی حالتوں کی بہتری کی طرف توجہ دلاتے رہے ہیں۔ گزشتہ خلفاء بھی اور میں بھی خطبات وغیرہ کے ذریعہ اس نقص کو دور کرنے کی طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں اور ان ہدایات کی روشنی میں ذیلی تنظیمیں بھی اور جماعتی نظام بھی پروگرام بناتے ہیں تا کہ ہم ہر طبقے اور ہر عمر کے احمدی کو دشمن کے ان حملوں سے بچانے کی کوشش کریں۔ لیکن اگر ہم میں سے ہر ایک اپنی عملی اصلاح کی طرف خود توجہ کرے، مخالفینِ دین کے حملوں کو ناکام بنانے کے لئے کھڑا ہو جائے اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ دشمنانِ دین کی اصلاح کا عزم لے کر کھڑا ہواور صرف دفاع نہیں کرنا بلکہ حملہ کر کے اُن کی اصلاح بھی کرنی ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ سے اپنا ایک خاص تعلق پیدا کرے تو نہ صرف ہم دین کے دشمنوں کے حملوں کو ناکام بنا رہے ہوں گے بلکہ اُن کی اصلاح کر کے اُن کی دنیا و عاقبت سنوارنے والے بھی ہوں گے۔ بلکہ اس فتنہ کا خاتمہ کر رہے ہوں گے جو ہماری نئی نسلوں کو اپنے بد اثرات کے زیرِ اثر لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس ذریعہ سے ہم اپنی نئی نسل کو بچانے والے ہوں گے۔ ہم اپنے کمزوروں کے ایمانوں کے بھی محافظ ہوں گے اور پھر اس عملی اصلاح کی جاگ ایک سے دوسرے کو لگتی چلی جائے گی اور یہ سلسلہ تا قیامت چلے گا۔ ہماری عملی اصلاح سے تبلیغ کے راستے مزید کھلتے چلے جائیں گے۔ نئی ایجادات برائیاں پھیلانے کے بجائے ہر ملک اور ہر خطّے میں خدا تعالیٰ کے نام کو پھیلانے کا ذریعہ بن جائیں گی۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 6 ؍دسمبر2013ءبمقام مسجد بیت الفتوح، لندن)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 27 ؍دسمبر 2013ء)
’’اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے ہونے ہیں ‘‘
الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعہ جہاں تبلیغ اور تربیت کے امور میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے وہاں معاندینِ احمدیت نے بھی مختلف فتنوں کو ہوا دینے کی نِت نئی کوششوں کا آغاز کردیا ہے۔ اِس ضمن میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بہت وعدے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ وعدے پورے ہونے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ میں بعض واقعات بھی آپ کو سناؤں گا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ جماعت کو پھیلا رہا ہے۔ لیکن نوجوان لڑکیوں سے خاص طور پر مَیں کہتا ہوں کہ بعض انٹر نیٹ اور بعض لوگوں کی باتوں میں آ کے یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت جو ہے وہ ترقی نہیں کر رہی، یا کسی بھی قسم کی مایوسی کی باتیں اُن سے شروع ہو جاتی ہیں اور دشمن ہمارے اندر مایوسی پھیلانے کی کوشش کرتا ہے، مخالفین پھیلانے کی کوششیں کرتے ہیں اور یہ جو آجکل کا میڈیا ہے، خاص طور پر ویب سائٹس وغیرہ ان کے ذریعے بہت بیہودہ قسم کی باتیں ہوتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ذہنوں میں مایوسی پیدا ہونی شروع ہوجاتی ہے اور مایوسی پیدا ہونے کے بعد دین سے دُور ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس لئے اس معاملے میں بھی خیال رکھیں کہ کبھی کسی قسم کا مایوسی کا خیال نہیں آنا چاہئے۔ ‘‘(خطاب برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ جرمنی 17 ؍ستمبر2011ء)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16؍نومبر 2012ء)
وَالنّٰشِرٰتِ نَشْراً
دین اسلام کے حقیقی پیغام کو کُل عالم میں پھیلانے کے لئے موجودہ زمانے کی ایجادات اور ذرائع ابلاغ کے جدید طریق بہت معاون اور سُودمند ثابت ہورہے ہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بارہا اپنے خطباتِ جمعہ اور خطابات میں اللہ تعالیٰ کے تائیدی نشانات اور انعامات و فتوحات کا بیان فرمایا ہے۔ ایک موقع پر قرآن کریم کے حوالہ سے یہی مضمون پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کوئی محدود طاقتوں والا نہیں ہے۔ اگر وہ چاہے کہ نبی کے زمانے میں بھی نبی سے کئے گئے تمام وعدے اور فتوحات کو اس زمانہ میں اور اس کی زندگی میں پورا کر دے تو کر سکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ بعد میں آنے والے بھی ان فتوحات اور انعامات سے حصہ لینے والے بن جائیں۔ پس اس زمانہ کے تیز وسائل ہمیں اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ ان کا صحیح استعمال کریں۔ انہیں کام میں لائیں اور صحابہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے زمانہ کے امام کے معین و مددگار بن جائیں اور مددگار بن کر اس کے مشن کو پورا کرنے والے ہوں۔ تیز رفتار وسائل اس طرف توجہ مبذول کروا رہے ہیں کہ ہم اس تیز رفتاری کو خدا تعالیٰ کا انعام سمجھتے ہوئے اس کے دین کے لئے استعمال کریں۔
اللہ تعالیٰ نے اگر یہ فرمایا ہے کہ وَالنّٰشِرٰتِ نَشْراً اور پیغام کو اچھی طرح نشر کرنے والوں کو بھی شہادت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ تو یہ پیغام وہ ہے جس کے لئے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایااوروہ کامل اور مکمل دین جو تاقیامت قائم رہنے والا ہے اس دین کے احیائے نَو کے لئے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ہے۔
پس خدا تعالیٰ نے اس نشر کے اس زمانہ میں جدید طریقے مہیا فرما دئیے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے پاس آج کل کے وسائل اور جدید طریقے موجود نہیں تھے۔ اس کے باوجود انہوں نےتبلیغ اسلام کا حق ادا کر دیا۔ آج کل ہمارے پاس یہ طریقے موجود ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کے زمانہ میں یہ مقدّر تھے۔ ا للہ تعالیٰ نے اس کی پیشگوئی بھی فرما دی تھی۔ یہآیت جو ہے یہ پیشگوئی ہے جس کا دوسری جگہ اس طرح ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِذَاالصُّحُفُ نُشِرَت۔ (التکویر11:) یعنی : اور جب کتابیں پھیلا دی جائیں گی۔ پس ایک تو یہ زمانہ کتابیں پھیلانے کا ہے جو مسیح موعود کا زمانہ ہے اور اس وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے روحانی خزائن کا ایک بے بہا سمندر ہمارے لئے چھوڑا ہے اور اس کی اشاعت آپ کے زمانے میں ہوئی۔ آپ کے صحابہ نے بھی اس کوپھیلانے میں خوب کردار ادا کیا۔ ہم صحابہ کے واقعات پڑھتے ہیں کہ کسی نہ کسی صحابی نے کوئی کتاب دوسرے شخص کو دی، اس نے پڑھی، اس کے دل پر اثر ہوا اور اس طرح آہستہ آہستہ لوگ احمدیت میں شامل ہوتے چلے گئے۔ اور ایک قربانی کے ساتھ ان لوگوں نے یہ کام کیا جیسا کہ اسلام کے دورِ اول میں صحابہ نے کیا تھا۔ اور پھر یہ لوگ، یہ صحابہ جن کی قسم کھائی گئی ہے، جن کو شہادت کے طور پرپیش کیا گیا ہے خدا تعالیٰ کے پسندیدہ بن گئے۔ اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ والا کردار ادا کیا۔ جس سے یہ لوگ بھی اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے بن گئے۔
آج خدا تعالیٰ نے ان کتابوں کو نشر کرنے کے اور اسلام کے مخالفین کے جواب دینے کے پہلے سے بڑھ کر ذرائع مہیا فرما دئیے ہیں جو تیز تر ہیں۔ کتابیں پہنچنے میں وقت لگتا تھا اب تو یہاں پیغام نشر ہوا اور وہاں پہنچ گیا۔ یہاں کتاب پرنٹ ہوئی اور دوسرے endسے نکال لی گئی۔ آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب، قرآنِ کریم اور دوسرا اسلامی لٹریچر انٹرنیٹ کے ذریعہ، ٹی وی کے ذریعہ نشر ہونے کی نئی منزلیں طے کر رہا ہے۔ جو تیزی میڈیا میں آج کل ہے آج سے چند دہائیاں پہلے ان کا تصور بھی نہیں تھا۔ پس یہ مواقع ہیں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائے ہیں کہ اسلام کی تبلیغ اور دفاع میں ان کو کام میں لاؤ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ یہ جدید ایجادات اس زمانہ میں ہمارے لئے اس نے مہیا فرمائی ہیں۔ ہمارے لئے یہ مہیا کر کے تبلیغ کے کام میں سہولت پیدا فرما دی ہے۔ اور ہماری کوشش اس میں یہ ہونی چاہئے کہ بجائے لغویات میں وقت گزارنے کے، ان سہولتوں سے غلط قسم کے فائدے اٹھانے کے ان سہولتوں کا صحیح فائدہ اٹھائیں۔ ان کو کام میں لائیں اور اگر اُس گروہ کا ہم حصہ بن جائیں جو مسیح محمدی کے پیغام کو دنیا میں پہنچا رہا ہے تو ہم بھی اس گروہ میں شامل ہو سکتے ہیں، ان لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں جن کی خدا تعالیٰ نے قسم کھائی ہے۔
MTA کی تقریب پر مَیں نے انہیں یہی کہا تھا کہ آج MTA کا ہر کارکن چاہے وہ جہاں بھی دنیا میں کام کر رہا ہے، یا کسی بھی کونے میں جہاں کام کررہا ہے، وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کو دنیا کے کنارے تک پہنچانے کا کام کر رہا ہے۔ یہ کام تو خدا تعالیٰ نے کرنا ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے خود آپؑ سے فرمایا تھا کہ مَیں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ ذرائع بھی پیدا فرمائے ہیں کہ آپ کا پیغام دنیا کے کناروں تک پہنچے۔ پس یہ خدا تعالیٰ کی تقدیر ہے اور یہ تمام ایجادات اس کی شہادت دے رہی ہیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 15 ؍اکتوبر 2010ءبمقام مسجد بیت الفتوح، لندن)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 5؍نومبر 2010ء)
جدید مواصلاتی نظام اور میڈیا کی صنعت میں روزافزوں ترقی کے نتیجہ میں احمدیوں کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے ایک موقع پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے درج ذیل ارشاد فرمایا(یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ حضورانور نے یہ نصائح براہ راست احمدی خواتین سے خطاب فرماتے ہوئے ارشاد فرمائی ہیں ):
’’اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں ہماری جماعت کے فائدہ کے لئے جدید مواصلاتی نظام اور میڈیا جیسے ذرائع ابلاغ کی سہولیات مہیا کردی ہیں۔ دنیا کے ہر کونہ میں اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے یہ ذرائع بہت اہم ثابت ہو رہے ہیں۔ جیسا کہ ایم ٹی اے کے ذریعہ ہماری جماعت کا پیغام زمین کے کناروں تک پہنچ رہا ہے۔ تاہم یہ صورتِ حال ہماری ذمہ داری کو مزید بڑھادیتی ہے کیونکہ جو لوگ ہمارا پیغام سُن رہے ہیں وہ یہ جاننے کے لئے ہماری جانب دیکھیں گے کہ آیا ہم جو کہہ رہے ہیں اس پر خود عمل بھی کرتے ہیں۔ اگر وہ لوگ یہ دیکھیں گے کہ ہم جو تعلیمات پیش کررہے ہیں وہ تو سچی ہیں لیکن احمدیوں کے اپنے عملی معیار میں کمزوری پائی جاتی ہے تو اس کا اُن پر مثبت اثر ہونے کے بجائے منفی ہونے کا احتمال ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دوسرے ہمارا پیغام تو سُنیں مگر یہ محسوس کریں کہ پرانے احمدیوں کا عملی معیار توقع کے مطابق نہیں ہے تو وہ اسلام کا حقیقی پیغام پھیلانے اور اس پر عمل کرنے کا بیڑا اٹھالیں۔ ایسی صورتحال میں ہماری جماعت یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کی ترقی اور کامیابی کا سہرا اِن نئے آنے والے نیک لوگوں کے سر ہوگا اور پیچھے رہ جانے والے ان برکتوں سے محروم رہ جائیں گے۔ پس پیچھے رہ جانے والوں میں آپ کا شمار نہ ہو۔ بلکہ احمدیت کی سچائی پھیلانے والوں کی صفِ اوّل میں نہ صرف اپنے قول سے بلکہ اپنے عمل اور کارناموں کے ذریعہ بھی شامل ہوجائیں۔ آپ اس روشنی کا منبع بن جائیں جس کی کرنیں اسلام کی سچائی کو روشن کردے‘‘۔ (اردو ترجمہ انگریزی خطاب برموقع نیشنل اجتماع لجنہ اماء اللہ یوکے بمقام ٹلفورڈ یوکے25؍ اکتوبر2015ء)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 25؍ مارچ 2016ء)
اللہ تعالیٰ ہمیں یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم نئے دَور کی ایجادات سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے اپنی تعلیمی، تبلیغی اور تربیتی صلاحیّتوں میں اضافہ کرتے چلے جائیں۔ نیز خلیفۂ وقت کے سلطان نصیر اور اسلام احمدیت کے قابل فخر سپوت بن کر خدمت کے میدان میں آگے بڑھتے چلے جائیں۔ آمین