سوشل میڈیا (Social Media)
میڈیا کے ذریعہ جھوٹ اور فریب
جعلی فیس بُک اکاؤنٹ
آجکل میڈیا کے ذریعہ نہ صرف ہر قسم کے اخلاقی اصول پامال کئے جارہے ہیں بلکہ کئی لوگ ریاکاری اور فریب کے مختلف طریقے اختیار کرتے ہوئے دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں اور نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس قسم کے دھوکوں سے محفوظ رہنے کے لئے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’تیسری بات مَیں آج یہ کہنا چاہتا تھا کہ مجھے پتہ لگا کہ میرے نام سے آج کل انٹرنیٹ وغیرہ پرفیس بُک(facebook)ہے۔ فیس بُک کا ایک اکاؤنٹ کھلا ہوا ہے جس کا میرے فرشتوں کو بھی پتہ نہیں۔ نہ کبھی مَیں نے کھولا نہ مجھے کوئی دلچسپی ہے بلکہ مَیں نے تو جماعت کو کچھ عرصہ ہوا، اس بارہ میں تنبیہ کی تھی کہ اس فیس بُک سے بچیں۔ اس میں بہت ساری قباحتیں ہیں۔ پتہ نہیں کسی نے بے وقوفی سے کیا ہے، کسی مخالف نے کیا ہے یا کسی احمدی نے کسی نیکی کی وجہ سے کیا ہے۔ لیکن جس وجہ سے بھی کیا ہے، بہر حال وہ توبند کروانے کی کوشش ہو رہی ہے انشاء اللہ تعالیٰ وہ بند ہو جائے گا۔ کیونکہ اس میں قباحتیں زیادہ ہیں اور فائدے کم ہیں۔ بلکہ انفرادی طور پر بھی مَیں لوگوں کو کہتا رہتا ہوں کہ یہ جو فیس بُک ہے اس سے غلط قسم کی بعض باتیں نکلتی ہیں اور پھر اس شخص کے لئے بھی پریشانی کا موجب بن جاتی ہیں۔ خاص طور پر لڑکیوں کو تو بہت احتیاط کرنی چاہیے۔ لیکن بہرحال مَیں یہ اعلان کر دینا چاہتا تھا کہ یہ جو فیس بُک ہے اور اس میں وہ لوگ جن کے اپنے فیس بُک کے اکاؤنٹ ہیں، وہ آ بھی رہے ہیں، پڑھ بھی رہے ہیں، اپنے کمنٹس(comments)بھی دے رہے ہیں جو بالکل غلط طریقہ کار ہے اس لئے اس سے بچیں اور کوئی اس میں شامل نہ ہو۔
اگرایسی کوئی صورت کبھی پیدا ہوئی جس میں جماعتی طور پر کسی قسم کی فیس بُک کی طرز کی کوئی چیز جاری کرنی ہوئی تو اس کو محفوظ طریقے سے جاری کیا جائے گا جس میں ہر ایک کی accessنہ ہو اور صرف جماعتی مؤقف اس میں سامنے آئے اور اس میں جس کا دل چاہےآ جائے۔ کیونکہ مجھے بتایا گیا ہے کہ بعض مخالفین نے بھی اپنے کمنٹ(comment)اس پر دئیے ہوئے ہیں۔ اب ایک تو ویسے ہی غیر اخلاقی بات ہے کہ کسی شخص کے نام پرکوئی دوسرا شخص چاہے وہ نیک نیتی سے ہی کر رہا ہے وہ بغیر اس کو بتائے کام شروع کر دے۔ اس لئے جس نے بھی کیا ہے اگر تو وہ نیک نیت تھا تو وہ فوراً اس کو بند کر دے اور استغفار کرے اور اگر شرارتی ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے خود نپٹے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہرشر سے محفوظ رکھے اور جماعت کو ترقی کی راہوں پر چلاتا چلا جائے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 31 ؍دسمبر2010 ءبمقام مسجد بیت الفتوح، لندن)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 21 ؍جنوری 2011ء)
سائبر اٹیک(Cyber attack) سے نظام درہم برہم
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں دنیا کے بعض ممالک کے کشیدہ حالات کا ذکر کرتے ہوئے بھی نت نئے طریقوں سے ایک دوسرےکو نقصان پہنچانے کے حوالہ سے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
’’پھر نئی ایجادیں ہیں۔ انسانوں نے اپنے رابطوں کے لئے، اپنے ریکارڈ رکھنے کے لئے، اپنے معاشی اور دوسرے نظام چلانے کے لئے بڑی آسانیاں پیدا کی ہیں۔ کمپیوٹر نے بہت سے کاموں کو سنبھال لیا ہے۔ لیکن یہی ایجاد دنیا کی تباہی کا بھی ذریعہ بن سکتی ہے۔ آجکل بار بار کبھی کسی خاص ملک میں اور کبھی پوری دنیا میں سائبر اٹیک(cyber attack) ہو رہے ہیں۔ سارا نظام اس سے درہم برہم ہو جاتا ہے۔ یہاں کا بھی این ایچ ایس(NHS) کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ ایئر پورٹس کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ جنگی آلات کے استعمال اور جنگوں کی وجہ بننے میں بھی یہ سائبر حملے، جو ہیں خوفناک کردار ادا کر سکتے ہیں اور تباہی لاسکتے ہیں۔ چنانچہ نیٹو کے ایک نمائندے نے یہ واضح کیا ہے کہ نیٹو پر یا دنیا کے حساس معاملات میں کہیں بھی یہ سائبر حملہ ہو گیا تو ایک تباہ کن جنگ کا باعث بن سکتا ہے اور مزید ہم اس قسم کا حملہ برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ وارننگ وہ دے چکے ہیں۔ پس دنیا تو اپنی تباہی کے خود سامان کر رہی ہے اور سمجھتے ہیں کہ دنیا داروں کی ترقی ان کی حفاظت کی ضامن ہے جبکہ یہ ان کی تباہی کی وجہ بن سکتی ہےاور پھر دنیادار اور دنیادار سربراہان حکومت اپنے مفادات کے لئے بالکل لاپرواہ ہو گئے ہیں۔ خاص طور پر جب دنیا کی سب سے بڑی ظاہری طاقت کا صدر اپنے خول میں بیٹھ کر ہوائی باتیں کر کے سمجھتا ہو کہ دنیا اب میرے کہنے کے مطابق چلے گی تو پھر اس کی یہ باتیں حالات کو مزید بگاڑنے والا بنا رہی ہیں۔ ایک بات تو اس سے ظاہر ہے کہ یہ اپنے تکبر کی وجہ سے اپنے ہر مخالف کو اور مسلمانوں سے نفرت کی وجہ سے مسلمانوں کو ختم کرنے پر تُلا بیٹھا ہوا ہے۔ اپنے مخالفین کو، جو چاہے کوئی بھی ہوں، ختم کرنے پر تُلا بیٹھا ہے اور اس بات سے لاپرواہ ہے کہ دنیا میں مختلف وجوہات سے جو حالات پیدا ہو رہے ہیں اس کے خوفناک نتائج سے وہ بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍جون2017ءبمقام مسجد بیت الفتوح، لندن)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 21 ؍جولائی 2017ء)
موبائل فون کےعاریتاً استعمال سے دھوکہ
کسی اجنبی یا شناسا کو بھی اپنا موبائل فون دینا اگرچہ اُس کی مدد کرنا تو ہے ہی لیکن ایسا کرنا انتہائی خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔ چنانچہ مُلکِ شام جو لمبے عرصہ سے خانہ جنگی کا شکار ہے، وہاں سے تعلق رکھنے والے ایک معصوم احمدی بھی ایسے ہی کسی دھوکہ کا شکار ہوئے۔ اُن کی نماز جنازہ کا اعلان کرتے ہوئے حضورانور نے ارشاد فرمایا:
’’مَیں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔ یہ مکرم عبدالنور جابی صاحب سیریا کا ہے 1989ء کی ان کی پیدائش ہے۔ غالباً ان کو وہاں کی حکومت نے گرفتار کرلیا۔ صحیح طرح پورے کوائف بھی نہیں لکھے۔ بہرحال جو کوائف موجود ہیں اس کے مطابق چند ماہ قبل انہوں نے بزنس مینجمنٹ کی یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی تھی۔ 31؍دسمبر 2013ء کو وہاں حکومتی کارندوں نے ہی آپ کو گرفتار کیا تھا اور گرفتاری کی وجہ یہ تھی کہ کسی نے ان کا موبائل فون عاریتاً لے کر وہاں کے باغیوں کو فون کیا تھا۔ یہ سیریا میں حالات خراب ہونے کے ابتدائی ایام کی بات ہے۔ جب کسی کو ضرورت کے وقت عاریتاً فون دینا اس وقت کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہوتی تھی تو بہرحال باغیوں میں سے کسی نے ان کا فون لے کر اپنے ساتھیوں سے مالی لین دین کی بات کی اور اس بارے میں فون کو تو حکومت کی ایجنسیاں انٹرسیپٹ(intercept) بھی کرتی ہیں، چیک کرتی ہیں۔ انہوں نے پکڑ لیا، تحقیق کے دوران یہ ثابت ہوا کہ آپ کے فون سے کال ہوئی تھی اور آپ کا باغیوں کے ساتھ رابطہ ہے۔ اس وجہ سے آپ کو گرفتار کر لیا گیا اور پھر شہید بھی کردیا گیا۔ طبی رپورٹ کے مطابق مرحوم گرفتاری کے تیسرے روز ہی سر پر شدید چوٹ آنے کی وجہ سے فوت ہو گئے تھے کیونکہ یہ حکومتی پولیس والے بھی بڑا ٹارچر دیتے ہیں۔ جو باغیوں کا حال ہے وہی حکومت کے کارندوں کا بھی حال ہے۔ تاہم ان کی وفات کی خبر ان کے گھر والوں کو 22؍فروری 2016ء کو ملی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 18 ؍مارچ 2016بمقام مسجدبیت الفتوح، لندن)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 8 ؍اپریل 2016ء)
خلفاء کی تصاویر کا غلط استعمال اور بدعات سے اجتناب
تصاویر کی اشاعت(مثلاً سوشل میڈیا پر تصاویر کے استعمال کے ساتھ) بدعات پھیلنے کے خطرناک اثرات کو بیان کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احباب جماعت کو تفصیل سے نصائح فرمائی ہیں۔ ایک موقع پر فرمایا:
’’حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود اپنی تصویر کھنچوائی لیکن جب ایک کارڈ آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا(پوسٹ کارڈ تھا) جس پر آپ کی تصویر تھی تو آپ نے فرمایا کہ اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور جماعت کو ہدایت فرمائی کہ کوئی شخص ایسے کارڈ نہ خریدے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آئندہ کسی نے ایسا کرنے کی جرأت نہ کی۔ (ماخوذ ازخطباتِ محمود جلد 14 صفحہ 214)
لیکن آجکل پھر بعض جگہوں پر بعض ٹویٹس(tweets) میں، واٹس ایپ(whatsapp) پہ میں نے دیکھا ہے کہ لوگ کہیں سے یہ پرانے کارڈ نکال کر یا پھر انہوں نے اپنے بزرگوں سے لئے یا بعضوں نے پرانی کتابوں کی دوکانوں سے خریدے اور پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تو یہ غلط طریق ہے اس کو بند کرنا چاہئے۔ تصویر آپ نے اس لئے کھنچوائی تھی کہ دور دراز کے لوگ اور خاص طور پر یورپین لوگ جو چہرہ شناس ہوتے ہیں وہ آپ کی تصویر دیکھ کر سچائی کی تلاش کریں گے، اس کی جستجو کریں گے لیکن جب آپ نے دیکھا کہ لوگ کارڈ پر تصویر شائع کرکے یہ کاروبار کا ذریعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں یا کہیں بنا نہ لیں اور جب آپ نے محسوس کیا کہ اس سے بدعت نہ پھیلنی شروع ہو جائے، یہ بدعت پھیلنے کا ذریعہ نہ بن جائے تو آپ نے سختی سے اس کو روک دیا بلکہ بعض جگہ آپ نے فرمایا کہ ان کو ضائع کروا دیا جائے۔ پس وہ بعض لوگ جو تصویروں کا کاروبار کرتے ہیں، جنہوں نے تصویروں کو کاروبار کا ذریعہ بنایا ہوا ہے اور بے انتہا قیمتیں اس کی وصول کرتے ہیں ان کو توجہ کرنی چاہئے۔ پھر بعض ایسے بھی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر میں بعض رنگ بھر دیتے ہیں حالانکہ کوئی coloured تصویر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نہیں ہے۔ یہ بھی بالکل غلط چیز ہے اس سے بھی احتیاط کرنی چاہئے۔ اسی طرح خلفاء کی تصویروں کے غلط استعمال ہیں ان سے بھی بچنا چاہئے۔
ایک دفعہ سینما اور بائی سکوپ کے بارہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے ایک شوریٰ میں بحث چل گئی تو اس پر آپ نے فرمایا کہ ’’یہ کہنا کہ سینما یا بائی سکوپ یا فونو گراف اپنی ذات میں بُرا ہے، صحیح نہیں۔ فونوگراف خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سنا ہے بلکہ اس کے لئے آپ نے خود ایک نظم لکھی اور پڑھوائی اور پھر یہاں کے ہندوؤں کو بلوا کر وہ نظم سنائی۔ یہ وہ نظم ہے جس کا ایک شعر یہ ہے کہ
آواز آ رہی ہے یہ فونو گراف سے
ڈھونڈو خدا کو دل سے، نہ لاف و گزاف سے
پس سینما اپنی ذات میں برا نہیں۔ (لوگ بڑا سوال کرتے ہیں کہ وہاں جانا گناہ تو نہیں ہے۔ یہ اپنی ذات میں برا نہیں ہے) بلکہ اس زمانے میں اس کی جو صورتیں ہیں وہ مخرب اخلاق ہیں۔ اگر کوئی فلم کلّی طور پر تبلیغی یا تعلیمی ہو اور اس میں کوئی حصہ تماشا وغیرہ کا نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ ‘‘(کوئی ڈرامے بازی نہ ہو۔ ) حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’میری یہی رائے ہے کہ تماشا تبلیغی بھی ناجائز ہے‘۔ غلط طریق ہے۔ (ماخوذ ازرپورٹ مجلس مشاورت سال 1939ء صفحہ 86)
پس اس بات سے اُن لوگوں پر واضح ہو جانا چاہئے جو یہ کہتے ہیں کہ ’ایم ٹی اے‘ پر اگر پروگراموں میں بعض دفعہ میوزک آ جائے تو کوئی حرج نہیں یا ’وائس آف اسلام‘ ریڈیو شروع ہوا ہے اُس پر بھی آ جائے تو کوئی حرج نہیں۔ ان باتوں اور ان بدعات کو ختم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے تھے۔ ہمیں اپنی سوچوں کو اس طرف ڈھالنا ہو گا جو آپ علیہ السلام کا مقصد تھا۔ نئی ایجادات سے فائدہ اٹھانا حرام نہیں، نہ یہ بدعات ہیں۔ لیکن ان کا غلط استعمال بدعت بنا دیتا ہے۔
بعض لوگ یہ تجویزیں بھی دیتے ہیں کہ ڈرامے کے رنگ میں تبلیغی پروگرام یا تربیتی پروگرام بنائے جائیں تو ان کا اثر ہو گا۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اگر آپ ایک غلط بات میں داخل ہوں گے یا کوئی بھی غلط بات اپنے پروگراموں میں داخل کریں گے تو کچھ عرصے بعد سو قسم کی بدعات خود بخود داخل ہوجائیں گی۔ غیروں کے نزدیک تو شاید قرآن کریم بھی میوزک سے پڑھنا جائز ہے لیکن ایک احمدی نے بدعات کے خلاف جہاد کرنا ہے اس لئے ہمیں ان باتوں سے بچنا چاہئے اور بچنے کی بہت کوشش کرنی چاہئے‘‘۔
پھر فرمایا: ’’ایک غیر احمدی نے ایک اخبار میں مضمون لکھا جو ایک لطیفہ تو ہے۔ اس سے ایک مولوی صاحب کی جہالت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن ساتھ ہی ان کی سوچوں کا بھی پتا لگتا ہے کہ یہ اس چیز کو جائز سمجھتے ہیں۔ یہ لکھنے والا لکھتا ہے کہ ایک جگہ ایک عرب گلوکارہ عربی میں میوزک کے ساتھ گانا گا رہی تھی۔ مولوی صاحب کو بھی وہاں لے گئے۔ وہ بڑے جھوم جھوم کر وہ سن رہے تھے۔ تو انہوں نے پوچھا کہ مولوی صاحب آپ اس عربی پہ اتنا جھوم کیوں رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سبحان اللہ اور ساتھ ساتھ سبحان اللہ اور ماشاء اللہ اور اللہ اکبر بھی پڑھتے جائیں۔ انہوں نے کہا جھوم کیوں رہے ہیں ؟ کہتا ہے دیکھو۔ دیکھ نہیں رہے تم کتنی خوبصورت آواز میں قرآن کریم پڑھ رہی ہے۔ اس گانے کو انہوں نے کیونکہ وہ عربی میں تھا قرآن کریم بنا دیا۔ تو جب یہ بدعات پھیلتی ہیں تو سوچیں بھی اسی طرح تبدیل ہو جاتی ہیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 18 ؍مارچ 2016 ءبمقام مسجد بیت الفتوح لندن)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل8 ؍اپریل 2016ء)