سوچنے کی باتیں
اظہار برأت
ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد حضرت خالدؓ بن ولید کو بنو جذیمہ کی طرف بھیجا۔ اس زمانہ میں کفار عام طور پر مسلمانوں کو صابی کہا کرتے تھے جیسے آج کل ہمیں مرزائی یا قادیانی کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل جہلاء کی ایک غلطی ہے جس میں بعض لکھے پڑھے بھی شریک ہو جاتے ہیں۔ اگر کسی شخص کا نام اس کے ماں باپ نے عبدالرحمن رکھا ہے تو اسے عبدالشیطان کہنے سے نہ وہ عبدالشیطان بن جائے گا اور نہ عبدالشیطان کہنا کوئی شرافت ہوگی۔ اسی طرح صحیح طریقہ تو یہی ہے کہ اگر کوئی اپنے آپ کو حنفی کہتا ہے تو اسے حنفی کہو، شیعہ کہتا ہے تو شیعہ کہو، سنّی کہتا ہے تو سنی کہو، مگر جس طرح لوگ ہمیں مرزائی یا قادیانی کہتے ہیں یا مشرقی پنجاب میں سکھ ہماری جماعت کے ہر شخص کو مولوی کہتے تھے، گو وہ ایک لفظ بھی عربی کا نہ جانتا ہو۔ اسی طرح اس زمانہ میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کو صابی کہا جاتا تھا اور چونکہ عوام الناس میں یہی نام رائج تھا اس لئے جب خالد بن ولید نے انہیں دعوت اسلام دی تو انہوں نے بجائے یہ کہنے کے کہ ہم اسلام قبول کرتے ہیں کہہ دیا کہ صبانا، صبانا ہم صابی ہوتے ہیں ہم صابی ہوتے ہیں۔ حضرت خالد بن ولید نے ان الفاظ کی کوئی پرواہ نہ کی اور ان میں سے بعض کو قتل کر دیا اور بعض کو قیدی بنا لیا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا دیئے اور فرمایا اَللَّھُمَّ اِنِّیْ أَبْرَیُٔ اِلَیْکَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ اے خدا ! میں اس فعل سے اپنی نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتا ہوں جس کا ارتکاب خالد نے کیا ہے اور آپ نے یہ فقرہ دو دفعہ دہرایا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی باب بعث النبی صلی اللہ علیہ وسلم خالد بن ولید الی بنی جذیمہ)
فرشتوں کو سب رشتہ داروں کی عزت کرنے کا حکم
فرمایا: وہ جو اگلے جہان کا مقبرہ ہے اس میں ہر شخص اپنے اپنے درجہ کے مطابق خدا تعالیٰ کا انعام پائے گا مگر رشتہ داروں کے لحاظ سے ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ جس کے ایسے رشتہ دارہونگے جن کے ساتھ وہ محبت سے رہ سکتا ہو اور جن کے عقائد اور خیالات سے وہ متفق ہو ایسے سب رشتہ داروں کو اکٹھا کر دیا جائے گا خواہ باپ ہوں، بیٹے ہوں، بیویاں ہوں اور فرشتے ان پر چاروں طرف سے داخل ہوں گے اور کہیں گے السلام علیکم۔
امیروں کے گھروں میں اگر ان کے غریب رشتہ دار آ جائیں تو وہ ان کے ساتھ نہایت حقارت سے پیش آتے ہیں اور وہ رشتہ دار بھی ان کے پاس رہنے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لطیفہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک ہندو نے اپنے ایک بیٹے کو نہایت اعلیٰ تعلیم دلائی اور اپنی زمین اور جائیداد وغیرہ فروخت کر کے اسے پڑھایا۔ یہاں تک کہ وہ ڈپٹی بن گیا۔ اس زمانہ میں ڈپٹی بڑا عہدہ تھا۔ ایک دن وہ امراء و رؤسا کے ساتھ اپنے مکان کے صحن میں بیٹھا تھا کرسیاں بچھی ہوئی تھیں کہ اتفاقاً اس کا باپ ملنے کے لیے آ گیا۔ اس نے ایک میلی کچیلی دھوتی پہنی ہوئی تھی۔ وہ آیا اور بے تکلفی سے ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کے گندے اور غلیظ کپڑے دیکھ کر جو ای۔ اے۔ سی اور دوسرے معززین بیٹھے ہوئے تھے انہیں بڑی تکلیف محسوس ہوئی مگر انہوں نے سمجھا کہ مالک مکان اسے خود ہی اٹھا دے گا، ہںیے کہنے کی کیا ضرورت ہے لیکن مالک مکان نے کچھ نہ کہا آخر انہوں نے ڈپٹی صاحب سے پوچھا کہ ان کی کیا تعریف ہے اس پر وہ لڑکا جسے اس کے باپ نے فاقے برداشت کر کر کے تعلیم دلائی تھی بولا کہ یہ ہمارے ٹہلیے ہیں یعنی ہمارے گھر کے نوکر ہیں۔ اس پر باپ کو سخت غصہ آیا اور وہ کہنے لگا میں ان کا ٹہلیا تو نہیں ان کی والدہ کا ضرور ہوں۔ اس فقرہ سے سب لوگ سمجھ گئے کہ یہ شخص ڈپٹی صاحب کا والد ہے اور انہوں نے ان کو سخت ملامت کی کہ آپ بڑے نالائق ہیں کہ اس طرح اپنے باپ کی ہتک کرتے ہیں۔ تو دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ غریب رشتہ دار جب اپنے کسی امیر رشتہ دار کے ہاں جاتے ہیں تو ان کی عزت میں فرق آ جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم فرشتوں کو حکم دیں گے کہ دیکھو سلام علیک نہ کہنا بلکہ سلام علیکم کہنا اور ان سب رشتہ داروں کی عزت کرنا جو اس کے پاس جمع کئے گئے ہوں۔ پس سلام علیکم کہہ کر اللہ تعالیٰ نے ان کی عزت کو بھی قائم کر دیا۔ (سیر روحانی جلد اول صفحہ 221 ۔ 222)