سوچنے کی باتیں
اللہ کا دیا سب کچھ ہے
صبر و قناعت کا مجسمہ ایک بڑھیا
حضرت خلیفۃ المسیح الاول سنایا کرتے تھے کہ ایک بڑھیا تھی جو بڑی نیک اور عبادت گزار تھی۔ میں نے ایک دفعہ اس سے کہا کہ مائی مجھے کوئی خدمت بتاؤ۔ میں چاہتا ہوں کہ اگر تمہاری کوئی خواہش ہو تو اس کو پورا کر کے ثواب حاصل کروں۔ وہ کہنے لگی۔ اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ میں نے پھر اصرار کیا اور کہا کہ کچھ تو بتاؤ۔ میری بڑی خواہش ہے کہ میں تمہاری خدمت کروں۔ وہ کہنے لگی۔ نور الدین! مجھے اور کیا چاہیے کھانے کے لیے روٹی اور اوڑھنے کے لیے لحاف کی ضرورت ہوتی ہے اللہ تعالیٰ مجھے دو روٹیاں بھجوا دیتا ہے۔ ایک میں کھا لیتی ہوں اور ایک میرا بیٹا کھا لیتا ہے۔ اور ایک لحاف ہمارے پاس موجود ہے جس میں ہم دونوں ماں بیٹا سو رہتے ہیں۔ میں ایک پہلو پر سوئے ہوئے تھک جاتی ہوں تو کہتی ہوں۔ بیٹا! اپنا پہلو بدل لے اور میں دوسرے پہلو پر لیٹ جاتی ہوں۔ اس کا ایک پہلو تھک جاتا ہے تو وہ مجھے کہتا ہے اور میں اپنا پہلو بدل لیتی ہوں۔ بس بڑے مزے سے عمر گذر رہی ہے اور کسی چیز کی کیا ضرورت ہے۔ میں نے پھر اصرار کیا تو کہنے لگی اچھا۔ اگر تم بہت ہی اصرار کرتے ہو تو پھر مجھے ایک موٹے حرفوں والا قرآن لا دو۔ میری نظر اب کمزور ہو گئی ہے اور باریک حروف نظر نںیل آتے۔ موٹے حرفوں والا قرآن مل جائے تو میں آسانی سے قرآن پڑھ سکوں گی۔ اب ایک طرف اس بڑھیا کی حالت کو دیکھو اور دوسری طرف اس امر کو سوچو کہ اب اگر کوئی چار سو روپیہ ماہوار کماتا ہے تو وہ بھی بے چین ہے۔ پانچ سو روپیہ ماہوار کماتا ہے تو وہ بھی بے چین ہے۔ دو ہزارروپیہ ماہوار کماتا ہے تو وہ بھی بے چین ہے۔ حالانکہ مال حاصل کرنا اصل مقصود نہیں بلکہ اصل مقصودراحت اور چین ہوتا ہے اور اگر یہی حاصل نہ ہو تو روپیہ لے کر کسی نے کیا کرنا ہے۔ (تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ 17)