سوچنے کی باتیں
اندھیری راتوں کے تیر
دعا ایک ایسی طاقتور چیز ہے کہ دنیا میں اور کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور بھی بہت بڑی بڑی طاقتیں ہیں، مثلاً پانی کی طاقت، بجلی وغیرہ کی طاقت ہے۔ مگر دعا کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں۔ ایک بزرگ کی نسبت لکھا ہے کہ وہ جس جگہ رہتے تھے ان کے پڑوس میں ایک بڑا امیر رہتا تھا۔ جو ہر وقت گانے بجانے میں مشغول رہتا۔ جس سے انہیں سخت تکلیف ہوتی۔ ایک دن وہ اس کے پاس گئے اور جا کر کہا کہ دیکھو بھئی میں تمہارا ہمسایہ ہوں۔ اس لئے میرا بھی تم پر حق ہے۔ اول تو تمہیں اس لغو کام سے خود ہی رُک جانا چاہئے تھا۔ لیکن اگر ایسا نہیں کیا تو اب میری خاطر ہی اسے ترک کردو۔ کیونکہ مجھے اس سے سخت تکلیف ہوتی ہے وہ چونکہ بڑا رئیس اور صاحب رسوخ تھا اس نے کہا: تم کون ہوتے ہو مجھے روکنے والے۔ ہم کبھی نہیں رکیں گے۔ انہوں نے کہا اگر آپ اس طرح نہیں رکیں گے تو ہم بھی محبور ہیں ہم اور طرح سے روکیں گے۔ اس نے کہا کیا تم روکو گے؟ کیا تم میں اتنی طاقت ہے؟ میں ابھی سرکاری گارڈ منگواتا ہوں۔ انہوں نے کہا ہم گارڈ کا بھی مقابلہ کریں گے۔ اس نے کہا تم ان کا کیامقابلہ کرسکتے ہو؟ ۔ انہوں نے کہا نادان! ہمارا مقابلہ توپوں اور بندوقوں سے نہیں ہوگا بلکہ سہام اللیل سے ہوگا۔ لکھا ہے: یہ الفاظ انہوں نے کچھ ایسے دردناک لہجہ میں فرمائے کہ اس کی چیخیں نکل گئیں اور بول اٹھا: اس کا مقابلہ نہ میں کرسکتا ہوں نہ میرا بادشاہ کرسکتا ہے۔ آئندہ کے لئے میں اقرار کرتا ہوں کہ آپ کو گانے بجانے کی آواز نہیں سنائی دے گی۔ تو دعا میں وہ طاقت ہے کہ کوئی توپ و تفنگ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ کیوں؟ اس لئے کہ یہ تیر زمین سے نہیں بلکہ آسمان سے آتے ہیں پھر انسانوں کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ خدا انسانوں سے لے کر خود پھینکتا ہے اور خدا کے پھینکے ہوئے کو کوئی روک نہیں سکتا۔ (خطباتِ محمود جلد 5 صفحہ 141 بحوالہ الفضل 4 جولائی 1916ء)
اچھی چیز کے اظہار کی تڑپ
ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک عورت نے انگوٹھی بنوائی اور اس کے اظہار کے لئے بہت طریق استعمال کئے مگر کسی نے توجہ نہ کی۔ آخر اُس نے اپنے گھر کو آگ لگا دی۔ جب لوگ دوڑ کرآگ بجھانے کے لئے آئے تو اتفاقاً ایک عورت کی انگوٹھی پر نظر پڑ گئی۔ اُس نے کہا بہن یہ انگوٹھی تم نے کب بنوائی تھی۔ اس نے کہا کم بخت اگر تو اس کے متعلق پہلے ہی پوچھ لیتی تو میرا گھر کیوں جلتا۔
ایسا تو کوئی بیوقوف ہو گا جو ایک انگوٹھی کے دکھانے کے لئے اپنے گھر کو آگ لگا دے مگر ہاں اس حکایت کے بنانے والے نے اس سے یہ ظاہر کیا ہے کہ انسانی فطرت میں یہ بات ہے کہ وہ اپنی اچھی چیز کو ظاہرکرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پس جب انسانی فطرت میں یہ بات پائی جاتی ہے اور پھر مذہب خدا کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے تو جس کے پاس یہ ہو، اس کے دل میں اس کے ظاہر کرنے کے لئے کم از کم اس عورت جتنا تو جوش ہونا چاہئے، جس نے انگوٹھی دکھانے کے لئے اپنے گھر کو آگ لگا دی تھی۔ جس کے پاس سچا مذہب ہو، اسے تو اس وقت تک چین نہیں آنا چاہئے جب تک کہ اپنے مذہب کا اظہار دوسروں پر نہ کرلے۔ (خطباتِ محمود جلد 5 صفحہ328 بحوالہ الفضل 25 نومبر 1916ء)