سوچنے کی باتیں
ایسا بھی ہوتا ہے۔۔۔؟
یہی کھانا جو انسان کے لئے قوت اور طاقت کا باعث بلکہ انسانی زندگی کا انحصار اسی پر ہوتا ہے جب کوئی اسے حد سے زیادہ استعمال کرلیتا ہے تو یہی اس کے لئے نقصان دہ اور ہلاکت کا باعث ہوجاتا ہے۔ ہندؤوں کے ہاں شرادھ ہوتے ہیں۔ سنا گیا ہے کہ بعض وقت شرطیں لگا لگا کر پنڈت اتناکھا جاتے ہیں کہ پیٹ پھٹ جاتاہے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ایک برہمنی کسی خاندان میں بیاہی گئی ایک روز اس کی ساس نے اس کو کہا کہ اپنے سسر کے لئے بستر بچھا چھوڑو کہ وہ آج شرادھ کھانے گیا ہے جب کھا کر آتا ہے تو بیٹھ نہیں سکتا۔ یہ سن کر بہو رونے اور پیٹنے لگی کہ میں کن کمینوں کے ہاں بیاہی گئی ہوں ہماری قوم کی تو انہوں نے ناک کاٹ دی۔ ساس نے پوچھا تم کیوں روتی پیٹتی ہو۔ کہنے لگی تمہارے ہاں میرے بیاہے جانے سے تو ہمارے خاندان کی ناک کٹ گئی ہے۔ ہمارے خاندان سے تو جو کوئی شرادھ کھانے جاتا ہے وہ خود چل کرگھر نہیں آسکتا بلکہ چارپائی پر اٹھا کر اسے لانا پڑتا ہے اور تم کہتی ہو کہ وہ شرادھ کھا کر آتے ہیں تو بیٹھ نہیں سکتے۔ انہیں تو اتنا کھانا چاہیے کہ چل کر آبھی نہ سکیں۔ کھانا عمدہ چیزہے مگر دیکھو اس کی بداستعمالی نے ایسے لوگوں کو کیسا نکما اورسست کردیا۔ (خطبات محمود جلد 5 صفحہ 296 بحوالہ الفضل 13 اکتوبر 1916ء)
محبت ہو تو ایسی ہو
مجھے ہمیشہ حیرت ہوا کرتی ہے اور میں اپنے دل میں کہا کرتا ہوں کہ الٰہی تیری بھی عجیب قدرت ہے کہ تو نے کس طرح لوگوں کے دلوں میں میری نسبت محبت کے جذبات پیدا کردیئے کہ جب کبھی سفر میں باہر جانے کا موقعہ ملے اور میں گھوڑے پر سوار ہوں تو ایک نہ ایک نوجوان حفاظت اور خدمت کے خیال سے میرے گھوڑے کے ساتھ ساتھ پیدل چلتا چلا جاتاہے۔ اور جب میں گھوڑے سے اترتا ہوں تو وہ فوراً آگے بڑھ کر میرے پاؤں دبانے لگ جاتا ہے اور کہتا ہے حضور تھک گئے ہوں گے۔ میں خیال کرتا ہوں کہ میں تو گھوڑے پر سوار آیا اور یہ گھوڑے کے ساتھ پیدل چلتا آیا مگر اس محبت کی وجہ سے جو اسے میرے ساتھ ہے اس کو یہ خیال ہی نہیں آتا کہ یہ تو گھوڑے پر سوار تھے یہ کس طرح تھکے ہوں گے۔ وہ یہی سمجھتا ہے کہ گویا گھوڑے پر وہ سوارتھا اور پیدل مَیں چلتا آیا چنانچہ میرے اصرار کرنے کے باوجود کہ میں نہیں تھکا میں تو گھوڑے پر آرہا ہوں وہ یہی کہتا چلا جاتا ہے کہ نہیں حضور تھک گئے ہوں گے مجھے خدمت کا موقعہ دیا جائے۔ اور پاؤں دبانے لگ جاتا ہے تو جہاں محبت ہو وہاں اپنی تکلیف انسان کو کم نظر آتی ہے اور اپنے محبوب کی تکلیف بہت زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ لیکن عام حالات میں اپنی تکلیف زیادہ محسوس ہوتی ہے اور دوسرے کی تکلیف کم محسوس ہوتی ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابیؓ تھے ان کو فریب سے کفار نے گرفتار کرلیا اور چونکہ ان کے ہاتھ سے مکہ والوں کا کوئی عزیز مارا گیا تھا اس لئے گرفتار کرکے انہیں مکہ والوں کے ہاتھ فروخت کردیا۔ انہوں نے چاہا کہ اپنے اس عزیز کے بدلے اس صحابیؓ کو تکلیفیں دے دے کر ماردیں۔ چند دن انہیں قید میں رکھا اور جب ایک دن انہوں نے چاہا کہ آپ کو شہید کریں اور قتل کی تیاری کرنے لگے تو اس وقت انہوں نے یہ سمجھ کر کہ یہ بہت ڈرا ہوا ہوگا۔ اس صحابی سے پوچھا کہ کیا تمہارا دل چاہتا ہے کہ اس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری جگہ ہوتے اور تم آرام سے مدینہ میں اپنے بیوی بچوں میں بیٹھے ہوئے ہوتے۔ انہوں نے کہا تم تو یہ کہتے ہوکہ کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہاں ہوں اور میں مدینہ میں اپنے بیوی بچوں میں آرام سے بیٹھا ہوا ہوں لیکن مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ میں اپنے گھر میں آرام سے بیٹھا ہوا ہوں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کی گلیوں مںر چلتے ہوئے کوئی کانٹا بھی چبھ جائے۔ اب دیکھو اس صحابی کو اپنی تکلیف اس وقت یاد نہ رہی۔ بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپؐ کے عشق میں مدہوش ہونے کی وجہ سے آپؐ کی ایک خیالی تکلیف نے اسے بے چین کردیا۔ (خطبات محمود جلد 5 صفحہ 296 بحوالہ الفضل 15 مارچ 1938ء)