سوچنے کی باتیں
ایک خطرناک عقیدہ
جو کہ اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے
خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں تب مومن سمجھوں گا جب تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کے لئے دعائیں کرتے رہو گے اور ان کا کینہ اور بغض اپنے دلوں میں نہیں رکھو گے مگر آج یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان سے کینہ اور بغض رکھنا ہی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اب تھوڑے دنوں تک محرم کا مہینہ آنے والا ہے۔ ان ایام میں کس طرح تبرا کیا جاتا اور ابوبکرؓ، عمرؓ اور عثمانؓ کو گالیاں دی جاتی ہیں۔ حالانکہ قرآن یہ کہتا ہے کہ ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ ان کے متعلق دل میں کسی قسم کا بغض نہ ہو اور نہ صرف بغض نہ ہو بلکہ انسان محبت اور اخلاص کے ساتھ ان کے لئے ہمیشہ دعائیں مانگتا رہے۔
ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک شیعہ بادشاہ کے پاس ایک دفعہ ایک سنی بزرگ گئے اور اس سے امداد کے طالب ہوئے۔ وہ آدمی نیک تھے مگر چونکہ ان کا گذارہ بہت مشکل سے ہوتا تھا۔ اس لئے انہیں خیال آیا کہ میں بادشاہ کے پاس جاؤں اور اس سے کچھ مانگ لاؤں۔ وہ گئے تو وہاں اور بھی بہت سے لوگ موجود تھے جو اپنی حاجات کے لئے آئے ہوئے تھے مگر وہ سب شیعہ تھے اور یہ سنی۔ جب بادشاہ مال بانٹنے کے لیے کھڑا ہوا تو وزیر نے بادشاہ کے کان میں کچھ کہا اور اس نے اس سنی بزرگ کے علاوہ باقی سب کو مال تقسیم کر دیا اور وہ ایک ایک کر کے رخصت ہو گئے۔ یہ سنی بزرگ وہیں کھڑے رہے۔ آخر جب انہیں کھڑے کھڑے بہت دیر ہو گئی تو بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ اسے بھی کچھ دے کر رخصت کر دو۔ وزیر نے کہا میں دے تو دوں مگر یہ شخص شکل سے سنی معلوم ہوتا ہے بادشاہ نے کہا تمہیں کس طرح معلوم ہوا وہ کہنے لگا بس شکل سے میں نے پہچا ن لیا ہے۔ بادشاہ نے کہا اچھا تو اس کا امتحان کر لو۔ چنانچہ وزیر نے حضرت علیؓ کی فضیلت بیان کرنی شروع کر دی وہ سنی بزرگ بھی شوق سے سنتے رہے اور کہنے لگے حضور حضرت علیؓ کی شان میں کیا شبہ ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اور آپ کے داماد تھے خدا تعالیٰ نے انہیں خلافت عطا فرمائی۔ آپ کی شان سے تو انکار ہو ہی نہیں سکتا۔ بادشاہ کہنے لگا اب تو ثابت ہو گیا کہ یہ شیعہ ہے۔ وزیر کہنے لگا ابھی نہیں میں بعض اور باتیں بھی دریافت کر لوں۔ چنانچہ اس نے اور کئی باتیں کیں مگر وہ بھی ان سب کی تصدیق کرتے چلے گئے بادشاہ نے کہا۔ بس اب تو تمہیں یقین آ گیا ہوگا کہ یہ سنی نہیں بلکہ شیعہ ہے۔ وزیر کہنے لگا ابھی نہیں۔ تبرا دے کر دیکھیں اگر یہ تبرے میں شامل ہو گیا تو پتہ لگ جائے گا کہ شیعہ ہے اور اگر شامل نہ ہوا تو معلوم ہو جائے گا کہ سنی ہے۔ چنانچہ بادشاہ نے کہا بر ہر سہ لعنت۔ یعنی نعوذ باللہ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ پر لعنت۔ وزیر نے بھی کہا بر ہر سہ لعنت۔ وہ بزرگ سنی بھی بول اٹھے کہ بر ہر سہ لعنت۔ بادشاہ نے کہا اب تو یقینی طور پر ثابت ہو گیا کہ یہ شیعہ ہے۔ وزیر نے کہا حضور میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ یہ شخص منافقت سے کام لے رہا ہے وہ کہنے لگا اچھا تو پھر اس سے پوچھو کہ تم کون ہو۔ وزیر نے پوچھا کہ کیا آپ شیعہ ہیں وہ کہنے لگے نہیں۔ میں توسنی ہوں۔ وزیر کہنے لگا کہ مجھے آپ کی اور باتیں تو سمجھ آ گئی ہیں کہ جب میں حضرت علیؓ کی تعریف کرتا تھا تو آپ اس لئے اس تعریف میں شامل ہو جاتے تھے کہ حضرت علیؓ آپ کے نزدیک بھی واجب التعظیم ہیں مگر جب ہم نے یہ کہا کہ بر ہر سہ لعنت تو آپ نے بھی بر ہر سہ لعنت کہا۔ اس کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آئی۔ وہ کہنے لگے جب آپ نے کہا تھا بر ہر سہ لعنت تو آپ کی مراد تو یہ تھی کہ ابوبکرؓ، عمرؓ اور عثمانؓ پر لعنت ہو مگر جب میں نے بر ہر سہ لعنت کہا تو میرا مطلب یہ تھا کہ وزیر پربھی لعنت ہو اور بادشاہ پر بھی اور مجھ پر بھی جو ایسے گندے لوگوں کے گھر میں آ گیا ہوں۔ غرض شیعوں کا یہ طریق کہ صحابہ کرام کو گالیاں دیتے ہیں اور اکابر صحابہ کو منافق کہتے ہیں ناپسندیدہ اور مذکورہ بالا آیت قرآنی کے خلاف ہے۔ حضرت علیؓ کادرجہ بلند ماننے کے لئے اس کی کیا ضرورت ہے کہ حضرت ابوبکر، عمر اور عثمان رضوان اللہ علیہم کو منافق کہا جائے اس کے بغیر بھی شیعیت قائم رہ سکتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ قرآن کریم نہایت واضح طور پر فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے جو پاک بندے گذر چکے ہیں تمہیں ان کے متعلق دعاؤں سے کام لینا چاہیے اور کہنا چاہیے کہ خدایا ہمارے دلوں میں ان کے متعلق بغض پیدا نہ ہو کیونکہ اگر بغض پیدا ہوا تو ایمان ضائع ہو جائے گا۔ (سیر روحانی جلد اول صفحہ 218 ۔ 219)