سوچنے کی باتیں
بادشاہ کی خلعت اور شبلی کی توبہ
ایک مشہور تاریخی واقعہ ہے۔ شبلیؒ ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں یہ امیر گھرانے کے تھے اور بغداد کے بادشاہ کے گورنر تھے وہ کسی کام کے متعلق بادشاہ سے مشورہ کرنے کے لئے اپنے صوبہ سے دارالحکومت میں آئے انہی دنوں ایک کمانڈر انچیف ایران کی طرف ایک ایسے دشمن کے مقابلہ میں بھیجا گیا تھا جس سے کئی فوجیں پہلے شکست کھا چکی تھیں، اس نے دشمن کو شکست دی اور ملک کو دوبارہ مملکت میں شامل کیا، جب وہ واپس آیا تو بغداد میں اس کا بڑا بھاری استقبال کیا گیا۔ اور بادشاہ نے بھی ایک دربار خاص منعقد کیا تا کہ اسے انعام دیا جائے اور اس کے لئے ایک خلعت تجویز کیا جو اس کے کارناموں کے بدلہ میں اسے دیا جانا تھا مگر بدقسمتی سے سفرسے آتے ہوئے اسے نزلہ ہو گیا، دوسری بدقسمتی یہ ہوئی کہ گھر سے آتے ہوئے وہ رومال لانا بھول گیا جب اس کو خلعت دیا گیا تو دستور کے مطابق اس کے بعد اس نے تقریر کرنی تھی کہ میں آپ کا بڑا ممنون ہوں، آپ نے مجھ پر بڑا احسان کیا ہے اور میری تو اولاد دَر اولاد اس چار گز کپڑے کے بدے میں آپ کی غلام رہے گی، مگر جب وہ تقریر کے لئے آمادہ ہورہا تھا تو یک دم اسے چھینک آئی اور ناک سے بلغم ٹپک پڑا۔ بلغم کے ساتھ اگر وہ تقریر کرتا توشاید قتل ہی کردیاجاتا۔ اس نے گھبراہٹ میں اِدھر اُدھر ہاتھ مارا جب دیکھا کہ رومال نہیں ملا تو نظر بچا کر اسی جبہ سے اس نے ناک پونچھ لی، بادشاہ نے اسے دیکھ لیا وہ کہنے لگا اتار لو اس خبیث کا خلعت، یہ ہماری خلعت کی ہتک کرتا ہے اور ہمارے دیئے ہوئے تحفہ سے ناک پونچھتا ہے، اس نے یہ کہا اور شبلیؒ نے اپنی کرسی پر چیخ ماری اور رونا شروع کردیا چونکہ دل میں نیکی تھی اور تقویٰ تھا، خدا نے ان کی ہدایت کے لئے ایک موقعہ رکھاہوا تھا انہوں نے چیخ ماری تو بادشاہ نے کہا خفا ہم اس پر ہوئے ہیں تم کیوں روتے ہو وہ کھڑے ہوگئے اور انہوں نے کہا بادشاہ میں اپنا استعفا پیش کرتا ہوں۔
بادشاہ نے کہا یہ کیا بے وقت کی راگنی ہے کیا ہوا تم کو اور کیوں تم استعفا پیش کرتے ہو۔ انہوں نے کہا بادشاہ میں یہ کام نہیں کرسکتا۔ اس نے کہا آخر ہوا کیا۔ انہوں نے روتے ہوئے کہا کہ یہ شخص آج سے دو سال پہلے اس جگہ سے نکلا تھا اور ایک ایسی مہم پر بھیجا گیا تھا جس میں ملک کے بڑے بڑے بہادر جرنیل شکست کھا کر آئے تھے اور ایک ایسے علاقہ کی طرف بھیجا گیا تھا جس کا دوبارہ فتح کرنا بالکل ناممکن سمجھا جاتا تھا یہ دو سال باہر رہا یہ جنگلوں میں گیا، یہ پہاڑوں میں گیا اور اس نے دشمن سے متواتر لڑائیاں کیں یہ ہرروز مرتا تھا۔ ہر صبح مرتا تھا اور ہر شام مرتا تھا۔ ہر شام اس کی بیوی سوچتی تھی کہ صبح میں بیوہ ہو کر اٹھوں گی اور ہر صبح جب وہ اٹھتی تھی تو خیال کرتی تھی کہ شام مجھ پر بیوگی کی حالت میں آئے گی۔ ہر شام اس کے بچے سوتے تھے تو سمجھتے تھے کہ صبح ہم یتیم ہوں گے اور ہر صبح اس کے بچے اُٹھتے تھے تو وہ خیال کرتے تھے کہ شام کو ہم یتیم ہوں گے ایک متواتر قربانی کے بعد اس نے اتنا بڑا ملک فتح کیا اور آپ کی مملکت میں لا کر شامل کیا۔ اس کے بدلہ میں آپ نے اس کو چند گز کپڑا دیا جس کی حیثیت ہی کیا تھی مگر محض اس لئے کہ اس نے مجبوراً اس خلعت سے ناک پونچھ لیا آپ اس پر اتنا خفا ہوئے پھر میں کیا جواب دوں گا اس خدا کے سامنے جس نے مجھے یہ جسم ایسا دیا ہے جس کو کوئی بادشاہ بھی نہیں بنا سکتا جس نے مجھے یہ خلعت دی ہے اور میں اس کو تیری خاطر گندا کر رہا ہوں میں اس کے متعلق اپنے خدا کو کیا جواب دوں گا۔ یہ کہہ کر وہ دربار سے نکل گئے مگر وہ اتنے ظالم اور جابر تھے کہ جب مسجد میں گئے اور انہوں نے کہا کہ میں توبہ کرنا چاہتا ہوں تو ہر ایک نے یہی کہا کہ کمبخت کیا شیطانوں کی توبہ بھی کہیں قبول ہوسکتی ہے، نکل جا یہاں سے۔ انہوں نے ہر جگہ پھرنا شروع کیا مگر کسی کویہ جرأت نہیں ہوتی تھی کہ ان کی توبہ قبول کرے۔
آخر وہ جنید بغدادیؒ کے پاس پہنچے کہ اِس اِس طرح مجھ سے قصور ہوئے ہیں اور اب میں توبہ کرنا چاہتاہوں کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں قبول ہوسکتی ہے مگر ایک شرط پر، پہلے اسے مانو۔ شبلی نے کہا مجھے وہ شرط بتائیں، میں ہر شرط ماننے کے لئے تیار ہوں۔ انہوں نے کہا اس شہر میں جاؤ جہاں تم گورنر رہے ہو اور ہر گھر پر دستک دے کر کہو کہ میں تم سے معافی مانگتا ہوں اور جو جو ظلم تم نے کئے تھے ان کی لوگوں سے معافی لو۔ انہوں نے کہا منظور ہے چنانچہ وہ گئے اور انہوں نے ہر دروازہ پر دستک دینی شروع کردی جب لوگ نکلتے وہ کہتے کہ ”میں شبلی ہوں جویہاں کا گورنرتھا میں قصورکرتا رہا ہوں۔ خطائیں کرتا رہا ہوں اور تم لوگوں پر ظلم کرتا رہا ہوں، اب میں اس کی معافی طلب کرتا ہوں “ لوگ کہہ دیتے کہ اچھا ہم نے معاف کردیا، لیکن نیکی کا بیج ہمیشہ بڑھتا اور رنگ لاتا ہے دس بیس گھروں سے گذرے تو سارے شہر میں آگ کی طرح یہ بات پھیل گئی کہ وہ گورنر جو کل تک اتنا ظالم مشہور تھا وہ آج ہر دروازہ پر جا جا کر معافیاں مانگ رہا ہے اور لوگوں کے دلوں میں روحانیت کا چشمہ پھوٹا اور انہوں نے کہا، ہمارا خدا کتنا زبردست ہے کہ ایسے ایسے ظالموں کو بھی نیکی اور توبہ کی توفیق عطا فرما دیتا ہے چنانچہ پھر تو یہ ہوا کہ شبلیؒ، جنیدؒ کے کہنے کے ماتحت ننگے پاؤں ہر دروازہ پر جا کر دستک دیتے تھے لیکن بجائے اس کے کہ دروازہ کھل کر شکوہ اور شکایت کا دروازہ کھلتا اندر سے روتے ہوئے لوگ نکلتے اور کہتے تھے کہ آپ ہمیں شرمندہ نہ کریں آپ تو ہمارے لئے قابل قدر وجود ہیں اور ہمارے روحانی بزرگ ہیں۔ آپ ہمیں اس طرح شرمندہ نہ کریں۔ غرض سارے شہر سے انہوں نے معافی لی اور پھروہ جنیدؒ کے پاس آئے اور انہوں نے توبہ قبول کی اور انہیں اپنے شاگردوں میں شامل کیا اور اب وہ مسلمانوں کے بڑے بڑے اولیاء میں سے سمجھے جاتے ہیں۔ (سیرروحانی جلد دوم صفحہ 160 تا 163)