سوچنے کی باتیں
بہادر کون ہے۔۔
حدیث میں آتا ہے جب کسی کو غصہ آئے تو اگر وہ اس وقت چل رہا ہو تو کھڑا ہو جائے اگر کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اور اگر بیٹھا ہو تو لیٹ جائے اور اگر پھر بھی غصہ ٹھنڈا نہ ہو تو پانی پی لے۔ میں نے بچپن میں دیکھا ہے کہ جب بعض طالب علموں کی آپس میں لڑائی ہو جاتی ہے تو ایک پانی لے کر دوسرے کے منہ میں ڈالنے لگ جاتا اور اس طرح وہ لڑکا جسے غصہ آیا ہوتا تھا بے اختیار ہنس پڑتا اور غصہ جاتا رہتا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نفس کے دبانے کو اتنی اہمیت دی ہے کہ آپ فرماتے تھے۔
لَیْسَ الشَّدِیْدُ بِالصُّرْعَۃِ اِنَّمَا الشَّدِیْدُ الَّذِیْ یَمْلِکُ نَفْسَہٗ عِنْدَ الْغَضَبِ (بخاری۔ کتاب الأدب۔ باب الحذرمن الغضب)
کہ بہادر اس کو نہیں کہتے جوکُشتی میں دوسرے کو گرا لے، بہادر وہ ہے جسے غصہ آئے تو وہ اسے روک لے۔
پس بہادر غلام محمد پہلوان نہیں، بڑا بہادر ککر سنگھ پہلوان نہیں بلکہ بڑا بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے جذبات پر قابو رکھے اور اس کو روک لے۔ اس بارہ میں حضرت علیؓ کی ایک مثال بڑی ایمان افزاء ہے۔ جنگ خیبر میں ایک بہت بڑے یہودی جرنیل کے مقابلہ کے لئے نکلے اور بڑی دیر تک اس سے لڑتے رہے چونکہ وہ بھی لڑائی کے فن کا ماہر تھا اس لئے کافی دیر تک مقابلہ کرتا رہا۔ آخر حضرت علیؓ نے اسے گرا لیا اور آپ اس کی چھاتی پر چڑھ کر بیٹھ گئے اور ارادہ کیا کہ تلوار سے اس کی گردن کاٹ دیں۔ اتنے میں اس یہودی نے آپ کے منہ پر تھوک دیا۔ اس پر حضرت علیؓ اسے چھوڑ کر الگ کھڑے ہو گئے۔ وہ یہودی سخت حیران ہوا کہ انہوں نے یہ کیا کیا؟ جب یہ میرے قتل پر قادر ہو چکے تھے تو انہوں نے مجھے چھوڑ کیوں دیا؟ چنانچہ اس نے حضرت علیؓ سے دریافت کیا کہ آپ مجھے چھوڑ کر الگ کیوں ہو گئے۔ آپ نے فرمایا کہ میں تم سے خدا کی رضا کے لئے لڑ رہا تھا مگر جب تم نے میرے منہ پر تھوک دیا تو مجھے غصہ آ گیا اور میں نے سمجھا کہ اب اگر میں تم کو قتل کروں گا تو میرا قتل کرنا اپنے نفس کے لئے ہو گا، خدا کے لئے نہیں ہو گا۔ پس میں نے تمہیں چھوڑ دیا تا کہ میرا غصہ فرو ہو جائے اور میرا تمہیں قتل کرنا اپنے نفس کے لئے نہ رہے۔ یہ کتنا عظیم الشان کمال ہے کہ عین جنگ کے میدان میں انہوں نے ایک شدید دشمن کو محض اس لئے چھوڑ دیا تا کہ ان کا قتل کرنا اپنے نفس کے غصہ کی وجہ سے نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہو۔ (سیر روحانی جلد اول صفحہ 155 ۔ 156)