سوچنے کی باتیں
جماعت کی برکت
نپولین ایک بادشاہ گذرا ہے۔ اس کی نسبت مؤرخوں نے ایک عجیب واقعہ لکھا ہے۔ وہ فرانس کا بادشاہ تھا۔ اس نے روس پر حملہ کیا۔ روسیوں نے یہ طریق اختیار کیا کہ اپنے گاؤں اور شہروں کو جلاتے جاتے اور آگے آگے نکلتے جاتے۔ چونکہ روس کا ملک بہت وسیع ہے اور اس کا شمالی حصہ ایسا خطرناک ہے کہ اگر کوئی واقف کار نہ ہو تو برف کی وجہ سے انسان ہلاک ہوجاتے ہیں اس لئے وہاں تک پہنچ کر نپولین کی بہت سی فوج تباہ ہوگئی۔ اس وقت روسیوں نے نپولین کی فوج پر حملے کرنے شروع کردیئے اور اسے بہت تنگ کیا۔ حتی کہ وہ واپس ہونے پر مجبور ہوگئی اور اسے بہت جلدی واپس آنا پڑا۔ راستہ میں ایک جگہ ایسی تنگ ہوئی کہ بیٹھنے تک کے لئے جگہ نہ میسر ہوسکی کیونکہ تمام اردگرد دلدل تھی۔ اگر زمین پر بیٹھیں تو کپڑے اور ہتھیار کیچڑ سے بھر جاتے تھے اور اگرنہ بیٹھیں تو اتنے تھک گئے تھے کہ چلنے کی طاقت نہ تھی۔ اس وقت نپولین نے یہ تجویز کی کہ وہاں ایک کرسی تھی اس پر ایک شخص کو بٹھا دیا۔ دوسرے کو اس کے گھٹنوں پر۔ تیسرے کو دوسرے کے گھٹنوں پر۔ حتی کہ اس طرح ایک وسیع حلقہ میں لوگوں کو بٹھادیا۔ آخری آدمی کے گھٹنوں پر اس پہلے شخص کو بٹھا کر کرسی اس کے نیچے سے نکال لی اور اس پر خود بیٹھ گیا۔ اس طرح تمام فوج نے آرام بھی کرلیا اور سامان بھی خراب نہ ہوا۔ تو جماعت کے ساتھ وابستہ ہونے میں بہت سی خوبیاں ہوتی ہیں اور بعض تو ایسے فوائد پہنچتے ہیں جن کا پتہ بھی نہیں لگتا کہ یہ بھی کوئی بوجھ تھا جو ہلکا ہوگیا ہے۔ لیکن اگر اس کام کو فردًا فردًاکرنے لگو تو بہت مشکل پیش آجاتی ہے۔ (خطباتِ محمود جلد 5 صفحہ 112 ۔ 113 بحوالہ الفضل 30 مئی 1916ء )
نَر گدا
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ دوقسم کے گداگر ہوتے ہیں ایک وہ جو دروازے پر آ کر مانگنے کے لئے جب آواز دیتے ہیں توکچھ لئے بغیر نںی8 ٹلتے۔ ان کو نَر گدا کہتے ہیں اور دوسرے وہ جو آ کر آواز دیتے ہیں اگر کوئی دینے سے انکار کر دے تو اگلے دروازے پر چلے جاتے ہیں۔ ان کو خرگدا کہتے ہیں۔ آپ فرماتے کہ انسان کو خدا تعالیٰ کے حضور خرگدا نہیں بننا چاہئے۔ بلکہ نر گدا ہونا چاہئے اور اس وقت تک خداکی درگاہ سے نہیں ہٹنا چاہئے جب تک کچھ مل نہ چکے۔ اس طرح کرنے سے اگر دعا قبول نہ بھی ہونی ہو تو خدا تعالیٰ کسی اور ذریعہ سے ہی نفع پہنچا دیتا ہے۔ پس دوسرا گُر دعا کے قبول کروانے کا یہ ہے کہ انسان نر گدا بنے نہ کہ خر گدا۔ اور سمجھ لے کہ کچھ لے کر ہی ہٹنا ہے۔ خواہ پچاس سال ہی کیوں نہ دعا کرتا رہے۔ یہی یقین رکھے کہ خدامیری دعا ضرور سنے گا۔ یہ خیال بھی اپنے دل میں نہ آنے دے کہ نہیں سنے گا اگرچہ جس کام یا مقصد کے لئے وہ دعا کرتا ہو وہ بظاہر ختم شدہ ہی کیوں نہ نظر آئے پھر بھی دعا کرتا ہی جائے۔
لکھا ہے ایک بزرگ ہر روز دعا مانگا کرتے تھے ایک دن جبکہ وہ دعا مانگ رہے تھے ان کا ایک مرید آ کر ان کے پاس بیٹھ گیا۔ اس وقت ان کوالہام ہوا جو اس مرید کو بھی سنائی دیا۔ لیکن وہ ادب کی خاطر چپکا ہو رہا اور اس کے متعلق کچھ نہ کہا۔ دوسرے دن پھر جب انہوں نے دعا مانگنی شروع کی تو وہی الہام ہواجسے اس مرید نے بھی سنا۔ اس دن بھی وہ چپ رہا۔ تیسرے دن پھر وہی الہام ہوا۔ اس دن اس سے نہ رہا گیا۔ اس لئے اس بزرگ کو کہنے لگا کہ آج تیسرا دن ہے کہ میں سنتا ہوں ہر روز آپ کو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہاری دعا قبول نہیں کروں گا۔ جب خدا تعالیٰ نے یہ فرما دیا ہے تو پھر آپ کیوں کرتے ہیں۔ جانے دیں۔ انہوں نے کہا: نادان! تو صرف تین دن خدا کی طرف سے یہ الہام سن کر گھبرا گیا ہے اور کہتا ہے کہ جانے دو۔ دعا ہی نہ کرو۔ مگر مجھے تیس سال ہوئے ہیں یہی الہام سنتے، لیکن میں نہیں گھبرایا اور نہ ناامید ہوا ہوں۔ خدا تعالیٰ کا کام قبول کرنا ہے اور میرا کام دعا مانگنا۔ تو خواہ مخواہ دخل دینے والا کون ہے؟ وہ اپنا کام کررہا ہے میں اپنا کر رہاہوں۔ لکھا ہے۔ دوسرے ہی دن الہام ہوا کہ تم نے تیس سال کے عرصہ میں جس قدر دعائیں کی تھیں ہم نے وہ سب قبول کر لی ہیں۔ تو اللہ سے کبھی نا امید نہیں ہونا چاہئے۔ نا امید ہونے والے پر اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑک اٹھتا ہے جو شخص نا اُمید ہوتا ہے وہ سوچے کہ کون سی کمی ہے جو اس کے لئے خدا نے پوری نہیں کی۔ کیسے کیسے فضل اور کیسے کیسے انعام ہوئے اور ہورہے ہیں۔ پھر آئندہ ناامید ہونے کی کیا وجہ ہے؟ (خطباتِ محمود جلد 5 صفحہ 183 بحوالہ الفضل 29 جولائی 1916ء)