سوچنے کی باتیں
دوست آں باشد۔۔۔
سچے وفادار کی یہی علامت ہوتی ہے، وہ اپنے دوست اور محبوب کے لئے اپنی ہر چیز قربان کرنے لئے تیار ہوجاتا ہے کجا یہ کہ ایسا محبوب اور دلدار ہو جو نہ صرف محبوب اور دلدار ہو بلکہ انسان کا خالق اور مالک او رآقا بھی ہو۔
قصہ مشہور ہے کہ ایک نوجوان اپنے باپ کا مال دوستوں کے ساتھ مل کر اڑانے کا عادی تھا۔ ہر وقت اس کے اردگرد خوشامدیوں کا ہجوم رہتا اور وہ دن رات روپیہ کو برباد کرتے رہتے۔ اس کا باپ اسے ہمیشہ نصیحت کرتا کہ یہ خوشامدی اور خود غرض نوجوان ہیں انہیں تم سے حقیقی محبت نہیں۔ تم ان پر اپناروپیہ برباد مت کرو۔ مگر وہ اپنے باپ کی نصیحت کو کبھی تسلیم نہ کرتا اور یہی جواب دیتا کہ یہ میرے سچے دوست ہیں۔ باپ نے کہا۔ تمہیں اتنے دوست کہاں سے مل گئے مجھے تو ساری عمر میں صرف ایک دوست ملا ہے اور تمہاری یہ حالت ہے کہ تمہارے اردگرد ہر وقت دوستوں کا ہجوم رہتا ہے۔ جب بہت عرصہ گزر گیا اور باپ کی نصیحت اس نے تسلیم نہ کی تو ایک دن باپ نے اسے کہا اگر تمہیں میری بات پر اعتبار نہیں تو تجربہ کرلو اور اپنے دوستوں کا امتحان لے لو۔ پھر تمہیں خودبخود پتہ لگ جائے گا کہ تمہارے کتنے حقیقی دوست ہیں۔ اس نے کہا میں اپنے دوستوں کاکس طرح امتحان لوں۔ باپ نے کہا۔ کہ تم ہر دوست کے مکان پر جاؤ اور اسے کہو کہ میرے باپ نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے اور جائداد سے مجھے بے دخل کردیا ہے مجھے اس وقت کچھ روپیہ دیا جائے تا کہ میں روز گار کا انتظام کرسکوں۔ جب وہ اپنے دوستوں کے مکانوں پر گیا۔ اور انہیں معلوم ہوا کہ اسے باپ نے گھر سے نکال دیا ہے تو کسی نے اندر سے کہلا بھیجا کہ میں بیمارہوں افسوس ہے کہ اس وقت مل نہیں سکتا۔ کسی نے خادم کے ذریعہ کہلوا دیا کہ وہ گھر پر نہیں ہیں۔ کسی نے معذرت کا اظہار کردیا اور کہدیا کہ روپیہ تو تھا مگر آج ہی فلاں کو دیدیا گیا ہے۔ اسی طرح وہ خالی ہاتھ اپنے باپ کے پاس واپس پہنچا اوراسے کہا کہ آپ کی بات درست ثابت ہوئی۔ میری توکسی شخص نے مدد نہیں کی۔ باپ نے کہا: اب آؤ میں تمہیں اپنا دوست بتاتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ اسے اپنے ساتھ شہر سے باہر جنگل کی طرف لے گیا اور ایک مکان کے پاس پہنچ کر اس نے آوازدی۔ جس طرح اس زمانہ میں ریل پر پہرہ ہوتا ہے اس طرح پرانے زمانے میں سڑکوں پر پہرہ ہوا کرتا تھا اور وہ شخص بھی انہی پہرہ داروں میں ملازم تھا۔ اس نے زنجیر کھٹکھٹائی تو اندر سے آواز آئی کہ کون ہے۔ اس نے اپنا نام لیا کہ فلاں شخص ہوں۔ اس نے کہا: بہت اچھا مگر اتنا کہنے کے بعد خاموشی طاری ہوگئی اور آدھ گھنٹے تک اندر سے کوئی جواب نہ آیا۔
بیٹا کہنے لگا: آپ کا دوست بھی میرے دوستوں جیسا ہی ثابت ہوا ہے۔ باپ نے کہا: گھبراؤ نہیں، ابھی پتہ لگ جاتاہے کہ اس نے نکلنے میں کیوں دیر لگائی ہے۔ پانچ دس منٹ اور گذر نے کے بعد وہ شخص باہر نکلا۔ اس نے ایک ہاتھ میں اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ اس کی کمر میں میان بندھی ہوئی تھی اور اس کے دوسرے ہاتھ میں تلوار تھی۔ اس نے باہر نکل کر کہا: میرے دوست معاف کرنا مجھے دیراس لئے ہوگئی کہ آج آپ آدھی رات کے وقت تشریف لائے ہیں۔ جب آپ نے دروازہ کھٹکھٹایا تو میرے دل میں خیال آیا کہ آدھی رات کے وقت آپ کا میرے پاس آنا ضرور اپنے اندر کوئی غرض رکھتا ہے۔ چنانچہ میں نے سوچا کہ ممکن ہے آپ پر اس وقت کوئی مصیبت آئی ہوئی ہو اور آپ مدد کے لئے میرے پاس آئے ہوں اس خیال کے آنے پر میں نے تلوار اٹھالی۔ کیونکہ یہی اک چیز ہے جس سے میں آپ کی مدد کرسکتا تھا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ گو آپ کروڑ پتی ہیں مگر کبھی کروڑپتیوں پر بھی ایسی مصیبت آجاتی ہے کہ وہ پیسہ پیسہ کے محتاج ہو جاتے ہیں۔ (جیسے مشرقی پنجاب میں کئی مسلمان کروڑ پتی تھے مگر آج وہ بالکل کنگال ہیں ) میں ساری عمر پیسہ پیسہ جمع کرکے چار پانچ سو روپیہ اکٹھا کیا تھا اور اسے زمین میں دبا رکھا تھا۔ اس خیال کے آنے پر مَیں نے زمین کھودنی شروع کردی اور وہ تھیلی نکال لی اس لئے مجھے باہر آنے میں دیر ہوگئی ہے اس کے بعد مجھے خیال آیا کہ ممکن ہے آپ کے گھر والے بیمار ہوں اور ان کی تیمار داری کے لئے کسی کی مدد کی ضرورت ہو۔ چنانچہ مںھ نے اپنی بیوی کو جگایا اور اسے بھی اپنے ساتھ لے لیا۔ اب یہ تینوں چیزیں حاضر ہیں۔ بتائیے آپ کو کیا کام ہے۔ باپ نے اپنے بیٹے سے کہا : دیکھا۔ اس قسم کے دوست ہوا کرتے ہیں۔ یہ مثال اپنے اندر یہ سبق رکھتی ہے کہ اگر انسانوں کے دوست اس قسم کے ہوسکتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے دوست کو کیسا ہونا چاہئے۔ (خطباتِ محمود جلد 2 صفحہ 299 تا صفحہ 301 بحوالہ الفضل یکم نومبر 1947ء)