سوچنے کی باتیں
سندر سنگھا پکوڑے کھائیں گا
مجھے ایک لطیفہ یاد ہے۔ قادیان میں جہاں آج کل صدر انجمن احمدیہ کے دفاترہیں اور جہاں سے ایک گلی ہمارے مکانوں کے نیچے سے گذرتی ہے، وہاں ایک دن میں اپنے مکان کے صحن میں ٹہلتا ہوا مضمون لکھ رہا تھا کہ نیچے گلی سے مجھے دو آدمیوں کی آواز آئی۔ ان میں سے ایک تو گھوڑے پر سوار تھا اور دوسراپیدل تھا جو پیدل تھا، وہ دوسرے شخص سے کہہ رہا تھا کہ سندر سنگھا پکوڑے کھائیں گا۔ میں نے سمجھا کہ آپس میں باتیں ہو رہی ہیں اور ایک شخص دوسرے سے پوچھ رہا ہے کہ تم پکوڑے کھاؤ گے؟ مگر تھوڑی دیر کے بعد مجھے پھر آواز آئی کہ سندر سنگھا پکوڑے کھائیں گا اور وہ شخص جو گھوڑے پرسوار تھا برابر آگے بڑھتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ وہ اس موڑ پر جا پہنچا جو (بیت) مبارک کی طرف جاتا ہے مگر وہ برابر یہی کہتا چلا گیا کہ سندر سنگھا پکوڑے کھائیں گا۔ سندر سنگھا پکوڑے کھائیں گا۔ آخر گھوڑے کے قدموں کی آواز غائب ہو گئی اور آدھ گھنٹہ اس پر گذر گیا مگر میں نے دیکھا کہ وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہیں گلی میں بیٹھا ہوا یہ کہتا چلا جاتا تھا کہ سندر سنگھا پکوڑے کھائیں گا، سندر سنگھا پکوڑے کھائیں گا حالانکہ سندر سنگھ اس وقت گھر میں بیٹھا ہوا پھلکے کھا رہا ہوگا۔ دراصل وہ شراب کے نشہ میں تھا اور اس نشہ کی حالت میں یہی سمجھ رہا تھا کہ میں اس کے ساتھ چل رہا ہوں مگر شراب کی وجہ سے اس سے چلا نہیں جاتا تھا اور عقل پر ایسا پردہ پڑا ہوا تھا کہ وہیں دیوار کے ساتھ بیٹھا ہوا وہ سندر سنگھ کو پکوڑوں کی دعوت دیتا چلا جاتا تھا۔ تو شراب کی کثرت کی وجہ سے ٹانگوں کی طاقت جاتی رہتی ہے، عقل زائل ہو جاتی ہے، قویٰ کو نقصان پہنچتا ہے اور انسان بہکی بہکی باتیں کرنے لگتا ہے۔ (سیر روحانی جلد اول صفحہ 247)
نجوم کی حقیقت ایک احمدی نجومی کا واقعہ
دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے سب کچھ اللہ تعالیٰ کے منشا اور اس کے قانون کے ماتحت ہوتا ہے۔ یہ خیال کہ ستاروں کی گردش سے انسان آئندہ کے حالات معلوم کر سکتا ہے۔ قطعی طور پر غلط ہے اور لاہور والوں نے اس کا اندازہ بھی لگا لیا مگر مشکل یہ ہے کہ وہ لوگ جو دین سے پوری واقفیت نہیں رکھتے اس قسم کی غلط فہمیوں میں عموماً مبتلا رہتے ہیں اور منجم بھی بڑی آسانی سے کہہ دیتا ہے کہ مینار کے نہ ہونے کی وجہ سے مجھے ستاروں کی گردش معلوم کرنے میں غلطی لگ گئی ہے۔ یہی حال رمّالوں، جوتشیوں اور پامسٹوں کا ہوتا ہے۔ میرے پاس ایک دفعہ ایک احمدی نجومی آیا اور اس نے کہا میں آپ کو کچھ کرتب دکھانا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا میں اس کو سمجھتا تو لغو ہی ہوں مگر تمہاری خواہش ہے تو دکھا دو۔ اس نے کہا :میں نے یہ بات آپ سے اس لئے کہی ہے کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ مجھے یہ فخر حاصل ہو جائے کہ میں نے آپ کے سامنے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے بعد اس نے کہا: آپ اپنے دل میں کوئی فارسی شعر رکھیں۔ میں نے فارسی نہیں پڑھی کیونکہ ہمارے استاد یہ سمجھتے تھے کہ فارسی کی تعلیم سے عربی کو نقصان پہنچتا ہے۔ گو مثنوی رومی وغیرہ تو میں نے پڑھی ہیں مگر فارسی کی باقاعدہ تعلیم میں نے حاصل نہیں کی اور ایسے آدمی کو عموماً معروف شعر ہی یاد ہوتے ہیں۔ بہرحال میں نے اپنے دل میں سوچا کہ
کریما بہ بخشائے برحال ما
کہ ہستم اسیر کند ہوا
اس نے ایک کاغذ میرے سامنے رکھ دیا جس پر یہی شعر لکھا ہوا تھا اس کے بعد اس نے کہا کہ آپ ایک سے دس تک کوئی ہندسہ اپنے دل میں سوچیں۔ میں نے سات کا ہندسہ سوچا اور اس نے ایک کاغذ اٹھا کر مجھے دکھایا جس پر لکھا تھا کہ آپ سات کا ہندسہ سوچیں گے۔ پھر کہنے لگا کہ آپ اپنی پیٹھ پرسے کپڑا اٹھائیں۔ آپ کے دائیں طرف ایک مسہ ہے۔ میں نے کرتا اٹھایا تو وہاں مسہ بھی موجود تھا۔ میں نے کہا تمہاری پہلی دو چالاکیاں تو مجھے معلوم ہو گئیں۔ تم یہ بتاؤ کہ تم نے یہ کس طرح پتہ لگا لیا کہ میرے جسم کے دائیں طرف ایک مسہ ہے۔ اس نے کہا ہماری راول قوم اس فن میں بہت مشہور ہے اور اس نے بڑی کثرت سے انسانی جسموں کو دیکھا ہوا ہے۔ ایک لمبے مشاہدہ کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ اسّی فی صدی لوگوں کی کمر کے دائیں طرف کوئی نہ کوئی مسہ ضرور ہوتا ہے۔ اگر تین چار آدمیوں کو یہ بات بتائی جائے اور تین آدمیوں کے مسے نکل آئیں اور چوتھے کے نہ نکلیں تو عام طور پر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم سے کوئی حسابی غلطی ہو گئی ہوگی وہ ہمارے علم پر شبہ نہیں کرتے۔
ان دنوں قادیان میں ایک اہل حدیث لیڈر آئے ہوئے تھے۔ وہ مجھے ملنے کے لئے آئے تو اتفاقاً ان سے بھی اس بات کا ذکر آ گیا۔ کہنے لگے ان لوگوں کو کوئی علم نہیں آتا۔ محض ارڑ پوپو ہوتے ہیں۔ لیکن میں بھی چاہتا ہوں کہ اس شخص کو دیکھوں۔ وہ اب کی دفعہ آئے تو اسے میرے پاس ضرور بھجوا دیں۔ وہ قادیان کے قریب ہی ایک گاؤں کا رہنے والا تھا۔ اتفاق سے دوسرے تیسرے دن پھر آ گیا اور میں نے اسے انہی اہل حدیث مولوی صاحب کے پاس بھجوا دیا۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد وہ میرے پاس دوڑتے ہوئے آئے اور کہنے لگے یہ تو معجزہ ہے معجزہ۔ اس نے جتنی باتیں بتائیں وہ ساری کی ساری صحیح تھیں۔ معلوم ہوتا ہے اسے غیب کا علم آتا ہے۔ آپ اسے کہیں کہ کسی طرح یہ علم مجھے سکھا دے۔ میں نے ہنس کر کہا :تم تو اہل حدیث ہو اور جانتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے سوا کسی کو علم غیب نہیں۔ پھر یہ کیسی باتیں کرتے ہو۔ پھر میں نے انہیں کہا کہ ایک دفعہ تو اس نے باتیں دریافت کر لیں۔ اب اسے کہو کہ وہ مجھ سے پھر وہ دو باتیں دریافت کر کے دیکھے۔ میں نے خود بھی اسے کہا۔ مگر وہ اس کے لئے تیار نہ ہوا۔ جس چیز کا مجھ پر اثر تھا وہ صرف یہ تھی کہ اسے مسے کا کس طرح پتہ لگ گیا۔ اس کے متعلق اس نے بتایا کہ ہماری قوم کے لوگ ساری جگہ پھرتے رہتے ہیں اور وہ انڈونیشیا اور جاپان تک بھی جاتے ہیں۔ انہوں نے انسانی جسموں کو کثرت کے ساتھ دیکھنے کے بعدبعض نتائج قائم کئے ہوئے ہیں جو عموماً ستّر، اسّی فیصدی صحیح نکلتے ہیں جیسے انشورنس والوں نے اندازے لگائے ہوئے ہیں کہ اتنے آدمی بیمہ کرائیں تو ان میں سے اتنے مرتے ہیں اور اتنے زندہ رہتے ہیں چونکہ ستّر فی صدی لوگوں کا مسہ نکل آتا ہے اس لئے تیس فی صدی لوگ یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ یہ جانتے تو سب کچھ ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ حساب میں ان سے کوئی غلطی ہو گئی ہے۔ (سیر روحانی جلد دوم صفحہ 19 تا 21)