سوچنے کی باتیں
فن سیکھنے سے آتا ہے
میں قادیان والوں کو نصیحت کرتاہوں کہ وہ تیمارداری اور بیماروں کی خدمت کرناسیکھیں۔
یہاں تو یہ باتیں معمولی سمجھی جاتی ہیں لیکن یورپ میں اس کے سکھانے کے کالج ہوتے ہیں لیکن یہاں ایسی باتوں کومعمولی سمجھا جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ان سے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ مجھ سے ایک شخص نے مشورہ لیا کہ میں درزی کا کام سیکھنا چاہتاہوں۔ میں نے کہا: بہت اچھا کام ہے۔ وہ باہر کام سیکھنے گیا لیکن چند ہی دن کے بعد آگیا۔ اور جب میں نے پوچھا۔ اتنی جلدی کیوں واپس آگئے ہو توکہنے لگا کہ میں کام کرنے کے گُر سیکھ آیا ہوں، لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ جس طرح اسے پہلے کام کرنا نہیں آتا تھا۔ اسی طرح پھر بھی نہ آیا۔ اسی طرح میں نے کئی دفعہ بتایا ہے۔ ایک شخص طب پڑھنے کے لئے ایک طبیب کے پاس گیا۔ ایک دن طبیب ایک مریض کو دیکھنے گیا اور ساتھ اس کو بھی لے گیا۔ مریض کو سوء ہضمی کی شکایت تھی طبیب نے کہا آپ نے شاید چنے کھائے ہیں۔ اس نے کہا: ہاں۔ شاگرد نے دیکھا تو وہاں اس کو چنے کے دانے نظر آئے۔ اس نے خیال کیا طبیب نے یہ دانے دیکھ کر ہی بیمار ہونے کاباعث سمجھا ہے۔ اور بیماری کاپتہ لگانے کا گر یہی ہے جو چیز آس پاس ہو وہی بیماری کاباعث سمجھ لی جایا کرے۔ یہ خیال کرکے وہ واپس اپنے وطن پہنچا اور مشہور کردیا کہ میں طب پڑھ آیا ہوں۔ ایک دفعہ ایک امیر بیمار ہوا۔ اس کے ہاں اس کو بلوایا گیا۔ جب گیا۔ نبض دیکھنے کے بعد ادھر اُدھر دیکھنا شروع کیا اتفاقاً مریض کی چارپائی کے نیچے گھوڑے کی زین پڑی تھی۔ کہنے لگا: آپ نے بھی تو غضب کیا کہ زین کھائی ہے۔ بھلا کوئی زین بھی کھاتاہے۔ امیر نے کہا: یہ تو کوئی پاگل ہے اور اس کو پٹوا کے باہر نکلوا دیا۔ تو تیمارداری کا بھی ایک فن ہے جو محنت سے آتا ہے او رہر ایک کام کا یہی حال ہے کہ جب اس کے کرنے کے طریق نہ آتے ہوں۔ عمدگی سے نہیں ہوسکتا۔
(خطبات محمود جلد 6 صفحہ 433 بحوالہ الفضل24 مئی 1920ء)
گردشِ زمانہ
تاریخوں میں ایک واقعہ آیا ہے کہ ایک امیر شاعر ایک دن حمام میں نہانے کے لئے گیا اور وہاں اس نے اپنا جسم ملوانے کے لئے ایک خادم کو بلوانے کاحکم دیا۔ حمام والے نے ایک مضبوط نوجوان اپنے نوکروں میں سے اس کا جسم ملنے کے لئے بھجوا دیا۔ جب اس نے تہہ بند وغیرہ باندھ لیا اور اپنے کپڑے اتار کر حمام میں بیٹھ گیا اور خوشبودار پانی اپنے جسم پر ڈالا اور خوشبودار مسالے خادم نے اس کے جسم پر ملنے شروع کئے تو اس وقت کی کیفیت اسے ایسی لطیف معلوم ہوئی کہ اس نے اپنے نفس میں موسیقی کی طرف رغبت محسوس کی اور کچھ گنگنا گنگنا کر شعر پڑھنے لگا۔ جب وہ شعر پڑھ رہا تھا تو اچانک اس ملازم کی حالت متغیر ہوگئی اور اس کی چیخ نکل گئی اور وہ بے ہوش ہوکر زمین پر گر گیا۔ اس غسل کرنے والے نے سمجھاکہ شاید اس کو مرگی کا دورہ ہوا ہے۔ اور اس نے حمام کے افسر کو بلایا اور اس کے پاس شکایت کی کہ تم نے میرے جسم کو ملنے کے لئے ایک مجنون اور بیمار کو بھیج دیا۔ اس نے معذرت کی اور کہا کہ آج تک اس نوجوان کی بیماری کا حال مجھے معلوم نہیں ہوا۔ یہ تو بالکل تندرست تھا۔ بہر حال وہ اسے ہوش میں لائے اور اس سے پوچھا کہ یہ کیا واقعہ ہے۔ آج تک تو تم پر کبھی ایسا دورہ نہیں ہوا تھا۔ اس نوجوان نے گھبرائی ہوئی حالت میں اس شاعر سے دریافت کیا کہ آپ نے جو شعر پڑھے تھے۔ یہ آپ نے کس سے سنے ہیں اس نے کہا: میرے اپنے ہیں اور مجھے نہایت ہی محبوب ہیں۔ کیونکہ میں نہایت غریب ہوتاتھا اور نانِ شبینہ تک کا بھی محتاج تھا۔ اتفاقاً مجھے معلوم ہوا کہ فضل برمکی جو ہارون الرشید کے وزراء میں سے ایک وزیر تھا اور یحیی برمکی وزیر اعظم کا بیٹا تھا اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے اور شاعروں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ شعر کہہ کر لائیں۔ پھر جو مقابلہ میں اول آئے گا، اسے انعام دیا جائے گا۔
چنانچہ میں بھی قسمت آزمائی کے طور پر چند شعر کہہ کر اس مجلس میں حاضر ہوا۔ اور جب میری باری آئی تو میں نے وہ شعر سنائے۔ فضل برمکی اور اس کے بھائیوں اور اس کے باپ کو یہ شعر ایسے پسند آئے کہ انہوں نے لاکھوں روپیہ مجھے انعام میں دیا اور کئی خادم اور کئی گھوڑے اور کئی اونٹ اور چاندی اور سونے کے برتن اور غالیچے اور قالین اور عطریات کا اتنا بڑا خزانہ میرے حوالے کیا کہ میں دیکھ کر حیران رہ گیا اور میں نے کہا حضور میرے گھر میں تو اس کے رکھنے کی بھی گنجائش نہیں۔ انہوں نے کہا: کوئی فکر مت کرو۔ فلاں محلہ میں فلاں بڑی عمارت کو ابھی ہمارے خادموں نے تمہارے لئے خرید لیا ہے۔ اور ہمارے خادم ہی یہ سب مال اسباب اس نئے محل میں ابھی ابھی پہنچا دیں گے۔ اس دن سے میں امراء میں شمار ہوتا ہوں اور مجھے یہ شعر نہایت ہی پیارے ہیں کہ انہوں نے میری حالت کو بدل دیا اور تنگی سے نکال کر فراغت سے آشنا کیا۔ اس غلام نے کہا جانتے ہو کہ وہ شعر جن کی وجہ سے تم اس مرتبہ کو پہنچے جس بیٹے کے لئے کہے گئے تھے۔ وہ میں ہی ہوں جب میں نے یہ شعر تمہاری زبان سے سنے تومجھے وہ واقعہ یاد آگیا۔ جو میں نے اپنی دائیوں اور کھلائیوں سے سنا ہوا تھا کہ تیری پیدائش پر ایک شاعر کو اتنا انعام دیا گیا تھا اور میں نے کہا کہ وہ بچہ جس کی پیدائش پر یہ انعام دیا گیا تھا اور جن شعروں کی وجہ سے انعام دیا گیا تھا وہ شعر آج ایک اجنبی حمام میں اس راحت و آرام سے پڑھ رہا ہے اور وہ لڑکا جس کے لئے یہ شعر کہے گئے تھے، ایک خادم کی حیثیت سے اس کا جسم مل رہا ہے۔ اس شاعر پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ وہ اس کو چمٹ گیا اور رونے لگا اور اس نے کہا کہ میری ساری دولت تمہارے باپ دادا کی دی ہوئی ہے اور یہ تمہاری ہی دولت ہے۔ تم میرے گھر چلو۔ میں خادموں کی طرح تمہاری خدمت کروں گا اور تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہونے دوں گا۔ اس لڑکے نے جواب دیا کہ جس ذلت کو ہم پہنچ چکے ہیں وہ پہلے ہی بہت زیادہ ہے۔ اب میں اس کے ساتھ یہ مزید ذلت نہیں خریدنا چاہتا کہ جو انعام میرے باپ نے دیا تھا وہ جا کر خود استعمال کرنا شروع کردوں مگر چونکہ میرا راز اَب کھل گیا ہے اس لئے میں اب اس جگہ بھی نہیں رہ سکتا۔ اب میں کسی اور علاقہ میں نکل جاؤں گا جہاں مجھے جاننے والا کوئی نہ ہو اور کوئی محرمِ راز میری شکل کو دیکھ کر میرے آباء کی ذلت کو یاد نہ کرے یہ کہہ کر وہ اٹھ کروہاں سے چلا گیا اور نہ معلوم کہاں غائب ہوگیا۔
(خطباتِ محمود جلد 2 صفحہ 236 ۔ 237 بحوالہ الفضل 17 جولائی 1956ء )