سوچنے کی باتیں
لڈو اور حضرت مظہر جانِ جاناں
اگر انسان اپنے دل میں شکر گذاری کا جذبہ پیدا کرے تو اسے عالم کا ذرہ ذرہ اپنا محسن دکھائی دیتا ہے اور چونکہ عالم کا ہر ذرہ خدا تعالیٰ کے احسان کے نیچے ہے اس لئے اسے خدا ہی اپنا محسن حقیقی نظر آتا ہے۔ حضرت مرزا مظہر جانِ جاناںؒ دلّی کے ایک بہت بڑے بزرگ گذرے ہیں۔ ان کے متعلق لکھا ہے کہ انہیں لڈو بہت پسند تھے۔ دلی میں بالائی کے لڈو بنتے ہیں جو بہت لذیذ ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ وہ اپنی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کوئی شخص بالائی کے دو لڈو ان کے پاس ہدیۃً لایا۔ ان کے ایک شاگرد غلام علی شاہ بھی اس وقت پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے وہ دونوں لڈو ان کو دے دیئے۔ بالائی کے لڈو بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں۔ اخروٹ کے برابر بلکہ اس سے بھی چھوٹے ہوتے ہیں۔ انہوں نے ایک دفعہ ہی وہ دونوں لڈو اٹھائے اور منہ میں ڈال لئے۔ جب وہ کھا چکے تو حضرت مرزا مظہر جانِ جاناں نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا: میاں غلام علی! معلوم ہوتا ہے تم کو لڈو کھانے نہیں آتے۔ وہ اس وقت تو خاموش ہو گئے مگر کچھ دنوں کے بعد ان سے کہنے لگے حضور مجھے لڈو کھانے سکھا دیجئے۔ حضرت مرزا مظہر جان جاناںؒ نے کہا کہ اگر اب کسی دن لڈو آئیں تو مجھے بتانا۔ میں تمہیں لڈو کھانا سکھا دوں گا۔ کچھ دنوں کے بعد پھر کوئی شخص ان کے لئے بالائی کے لڈو لایا۔ میاں غلام علی صاحب کہنے لگے۔ حضور! آپ نے میرے ساتھ وعدہ فرمایا ہوا ہے کہ میں تمہیں لڈو کھانا سکھا دوں گا۔ آج اتفاقاً پھر لڈو آ گئے ہیں۔ آپ مجھے بتائیں کہ لڈو کس طرح کھائے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنا رومال نکالا اور اس پر وہ لڈو رکھ کر ایک لڈو سے ذرہ سا ٹکڑہ توڑ کر اپنے منہ میں ڈالا اور سبحان اللہ سبحان اللہ کہنے لگ گئے۔ پھر فرمانے لگے۔ واہ مظہر جان جاناںؒ تجھ پر تیرے رب کا کتنا بڑا فضل ہے۔ یہ کہہ کر پھر سبحان اللہ سبحان اللہ کہنے لگ گئے اور اپنے شاگرد کو مخاطب کر کے فرمایا: میاں غلام علی۔ یہ لڈو کن کن چیزوں سے بنتا ہے۔ انہوں نے چیزوں کے نام گنانے شروع کر دیئے کہ اس میں کچھ بالائی ہے، کچھ میٹھا ہے، کچھ میدہ ہے۔ یہ سن کر انہوں نے پھر سبحان اللہ سبحان اللہ کہنا شروع کر دیا اور فرمایا: میاں غلام علی۔ تمہیں پتہ ہے یہ میٹھا جو اس لڈو میں پڑا ہے کس طرح بنا۔ انہوں نے بتایا کہ زمیندار نے پہلے گنا بویا۔ پھر بیلنے میں اس کو بیلا۔ پھر رس تیار ہوئی اور اس سے شکر بنائی گئی۔ حضرت مظہر جان جاناںؒ فرمانے لگے: دیکھو وہ زمیندار جس نے نیشکر کو بویا تھا وہ کس طرح اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر راتوں کو اٹھ اٹھ کر اپنے کھیتوں میں گیا۔ اس نے ہل چلایا۔ کھیتوں کو پانی دیا اور ایک لمبے عرصہ تک محنت و مشقت برداشت کرتا رہا۔ صرف اس لئے کہ مظہر جان جاناں ایک لڈو کھا لے۔ یہ کہہ کر وہ پھر اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید میں مشغول ہو گئے اور تھوڑی دیر بعد فرمانے لگے: چھ ماہ زمیندار اپنے کھیت کو پانی دیتا رہا۔ پھر کس محنت سے اس نے نیشکر کو بیلا۔ اس سے رس نکالی اور پھر آگ جلا کر کتنی دفعہ وہ اس دنیا کے دوزخ میں گیا۔ محض اس لئے کہ مظہر جانِ جاناں ایک لڈو کھا لے۔ اس کے بعد انہوں نے اسی طرح میدہ اور بالائی کے متعلق تفاصیل بیان کرنی شروع کر دیں کہ کس طرح ہزاروں آدمی دن رات ان کاموں میں مشغول رہے۔ انہوں نے اپنی صحت کی پرواہ نہ کی۔ انہوں نے اپنے آرام کو نہ دیکھا۔ انہوں نے اپنی آسائش کو نظر انداز کر دیا اور یہ سارے کام خدا تعالیٰ نے ان سے محض اس لئے کرائے کہ مظہر جان جاناں ایک لڈو کھا لے۔ یہ کہہ کر ان پر پھر ربودگی کی کیفیت طاری ہو گئی اور وہ سبحان اللہ سبحان اللہ کہنے لگ گئے۔ اتنے میں عصر کا وقت آ گیا اور وہ اٹھ کر نماز کے لیے چلے گئے اور لڈو اسی طرح پڑا رہا۔ (تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ 18 ۔ 19)
خداتک پہنچے کا ذریعہ
قصہ مشہور ہے کہ کوئی بزرگ تھے ان کے پاس ایک دفعہ ایک طالب علم آیا جو دینی علوم سیکھتا رہا۔ کچھ عرصہ پڑھنے کے بعد جب وہ اپنے وطن واپس جانے لگا تو وہ بزرگ اس سے کہنے لگے: میاں ایک بات بتاتے جاؤ۔ وہ کہنے لگا دریافت کیجئے۔ میں بتانے کے لیے تیار ہوں۔ وہ کہنے لگے اچھا یہ تو بتاؤ کیا تمہارے ہاں شیطان بھی ہوتا ہے؟ وہ کہنے لگا حضور شیطان کہاں نہیں ہوتا۔ شیطان تو ہر جگہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا: اچھا جب تم نے خدا تعالیٰ سے دوستی لگانی چاہی اور شیطان نے تمہیں ورغلا دیا تو تم کیا کرو گے؟ اس نے کہا میں شیطان کا مقابلہ کروں گا۔ کہنے لگے :فرض کرو تم نے شیطان کا مقابلہ کیا اور وہ بھاگ گیا، لیکن پھر تم نے اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے جدوجہد کی اور پھر تمہیں شیطان نے روک لیا تو کیا کرو گے؟ اس نے کہا: میں پھر مقابلہ کروں گا وہ کہنے لگے اچھا مان لیا تم نے دوسری دفعہ بھی اسے بھگا دیا۔ لیکن اگر تیسری دفعہ وہ پھر تم پر حملہ آور ہو گیا اور اس نے تمہیں اللہ تعالیٰ کے قرب کی طرف بڑھنے نہ دیا تو کیا کرو گے؟ وہ کچھ حیران سا ہو گیا مگر کہنے لگا: میرے پاس سوائے اس کے کیا علاج ہے کہ میں پھر اس کا مقابلہ کروں۔ وہ کہنے لگے: اگر ساری عمر تم شیطان سے مقابلہ ہی کرتے رہو گے تو خدا تک کب پہنچو گے۔ وہ لاجواب ہو کر خاموش ہو گیا۔ اس پر اس بزرگ نے کہا کہ اچھا یہ تو بتاؤاگر تم اپنے کسی دوست سے ملنے جاؤ اور اس نے ایک کتا بطور پہرہ دار رکھا ہوا ہو اور جب تم اس کے دروازہ پر پہنچنے لگو تو وہ تمہاری ایڑی پکڑ لے تو تم کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگا کتے کو مارونگا اور کیا کرونگا۔ وہ کہنے لگے: فرض کرو تم نے اسے مارا اور وہ ہٹ گیا لیکن اگر دوبارہ تم نے اس دوست سے ملنے کے لئے اپنا قدم آگے بڑھایا اور پھر اس نے تمںیپ آ پکڑا تو کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگا: میں پھر ڈنڈا اٹھاؤں گا اور اسے ماروں گا۔ انہوں نے کہا اچھا تیسری بار پھر وہ تم پر حملہ آور ہو گیا تو تم کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگا: اگر وہ کسی طرح باز نہ آیا تو میں اپنے دوست کو آواز دوں گا کہ ذرا باہر نکلنا۔ یہ تمہارا کتا مجھے آگے بڑھنے نہیں دیتا۔ اسے سنبھال لو۔ وہ کہنے لگے: بس یہی گُر شیطان کے مقابلہ میں بھی اختیار کرنا اور جب تم اس کی تدابیر سے بچ نہ سکو تو خدا سے یہی کہنا کہ وہ اپنے کتے کو روکے اور تمہیں اپنے قرب میں بڑھنے دے۔۔۔ تم اس کا ہاتھ کیوں نہیں پکڑ لیتے جس کے قبضہ قدرت میں یہ تمام چیزیں ہیں۔ اگر تم اس سے دوستی لگا لو تو تمہیں ان چیزوں کا کوئی خطرہ نہ رہے اور ہر تباہی اور مصیبت سے بچے رہو۔ یہ علاج ہے جو قرآن کریم نے بتایا ہے۔ (سیر روحانی جلد اول صفحہ 66 ۔ 67)