سوچنے کی باتیں
مصنوعی اورتکلف کا رونا
انسان دوسرے کی باتوں کو سن کر ان جذبات اور احساسات کا قیاس نہیں کرسکتا۔ جو دوسرے کے دل میں پیدا ہورہے ہوتے ہیں۔ اگرکسی کی اپنی مرغی بھی مر جائے تو اسے جتنا درد ہوتا ہے اتنا درد اسے دوسرے کے بیٹے کی وفات کی خبر سن کر نہیں ہوتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں بہت سے لوگ دوسرے کے غم کی نقل کرکے اس سے ہمدردی کرتے ہیں۔ ان کے دل میں کوئی رنج نہیں ہوتا۔ اگر وہ سامنے آجائے گا تو رونے والی شکل بنا لیں گے اور ہمدردی کے چند الفاظ اپنے منہ سے نکال دیں گے لیکن ان کے دل غم کے جذبات سے بالکل خالی ہوں گے اس کے مقابلہ میں اگر ان کی اپنی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی ضائع ہوجائے تو وہ اس کے صدمہ کو برداشت نہیں کرسکتے۔
ہمارے ملک میں ایک قصہ مشہور ہے کہ کوئی چوڑھی تھی جو بادشاہ کے گھر میں صفائی کیا کرتی تھی۔ ایک دفعہ جب وہ شاہی محل سے باہر نکلی تو ڈیوڑھی کے اندر کھڑے ہو کر اس کی دیوا ر سے سر لگا کر اس نے رونا شروع کردیا اوراس درد اور کرب کے ساتھ روئی کہ باہر جو دربان کھڑے تھے انہوں نے سمجھا کہ شاہی خاندان میں کوئی موت واقع ہوگئی ہے۔ چنانچہ اس خیال پر انہوں نے بھی بغیر سوچے سمجھے رونا شروع کردیا اور دیوار سے لگ کرجھوٹی ہچکیاں لینی شروع کر دیں تا ایسا نہ ہو کہ ان کے متعلق یہ سمجھا جائے کہ وہ نمک حرام ہیں۔ ان کو روتے دیکھ کر اوروں نے بھی رونا شروع کردیا۔ پھر اوروں نے۔ یہاں تک کہ درباریوں تک یہ بات پہنچ گئی۔ چونکہ درباریوں کو یہ حکم ہوتا ہے کہ جب شاہی خاندان میں کوئی موت واقع ہو تو سیاہ لباس پہن کر آؤ۔ اس لئے وہ دوڑ دوڑ کر اپنے گھر گئے اور ہر ایک کالا لباس پہن کر دربارمیں سر نیچے جھکا کر بیٹھ گیا اور آنکھوں کے آگے رومال رکھ لیا۔ تا یہ معلوم ہو کہ وہ رو رہا ہے مگر جو سب سے بڑا وزیر تھا وہ کچھ سمجھ دار تھا وہ بغیر سیاہ لباس پہنے دربار میں آبیٹھا اور اس نے پاس والے سے پوچھا کہ کیا حادثہ ہوا ہے۔ اس نے کہا مجھے تو پتہ نہیں ساتھ والے کو پتہ ہوگا۔ میں نے اسے ماتمی لباس میں بیٹھا دیکھا تھا۔ میں بھی پہن کر آگیا کہ شاید شاہی خاندان میں کوئی حادثہ ہوا ہے۔ اس سے پوچھا گیا تو اس نے آگے سے اپنے پاس والے کا حوالہ دیا اور اس نے تیسرے کا اور اس نے چوتھے کا۔ آخر دربانوں تک بات پہنچی اور انہوں نے چوڑھی کا حوالہ دیا جب اسے بلا کر پوچھا گیا تواس نے بتایا کہ اللہ رکھے قلعہ میں تو ہر طرح خیریت ہے۔ بات یہ ہے کہ میں نے ایک سور کا بچہ پال رکھا تھا۔ آج صبح وہ مرگیا تو صفائی کا وقت قریب تھا اس لئے میں جلدی سے محلات میں آ گئی اور جذبات کو دبائے رکھا لیکن جب محل سے باہر آئی تو مجھ سے برداشت نہ ہوسکا اور ڈیوڑھی میں مجھے رونا آگیا۔ اب وہ جذبات جو اس چوڑھی کے دل میں دبے ہوئے تھے وہ چونکہ انہیں نکال نہیں سکی تھی اس لئے جب تک وہ صفائی میں مشغول رہی جذبات دبے رہے۔ مگر جب اس کا کام ختم ہوگیا اور اس کے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے تو اس نے بے تاب ہو کر رونا شروع کردیا۔ اور باقیوں نے اس کی بے تابی کو دیکھ کر یہ قیاس کیا کہ اس قدر غم کسی بڑے حادثہ پر ہی ہوسکتا ہے اور اس کی نقل میں رونی شکل بنا کر چیخنا شروع کردیا۔ اور انہوں نے سمجھاکہ بادشاہ یا اس کی بیگم مر گئی ہے۔ مگر بہر حال ان کا رونا مصنوعی رونا تھا۔ اور اس چوڑھی کا رونا حقیقی رونا تھا کیونکہ سورنی کا بچہ چوڑھی کا اپنا تھا اور اس کے مرنے پر اس نے حقیقی درد محسوس کیا مگر دربان اور درباری گو بادشاہ یا اس کی ملکہ یا کسی شہزادہ کو رو رہے تھے۔ مگر ان کا رونا مصنوعی تھا کیونکہ بادشاہ یا ملکہ سے ان کا حقیقی تعلق نہ تھا۔ تو اپنی قلیل سے قلیل تکلیف بھی بڑی معلوم ہوتی ہے اور دوسرے کی بڑی سے بڑی تکلیف بھی چھوٹی معلوم ہوتی ہے۔ (خطبات محمود جلد 2 صفحہ 211 تا 213 ۔ بحوالہ الفضل 15 مارچ 1938ء)