سوچنے کی باتیں
مہمان نوازی ۔ جس سے خدا خوش ہو گیا
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی احادیث میں مسلمانوں کو مہمان نوازی کی بار بار تلقین کی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس حکم پر اس طرح عمل کیا جاتا تھا کہ جو مسافر آتے وہ مسجد میں آ کر ٹھہر جاتے اور روزانہ یہ اعلان کر دیا جاتا کہ آج مسجد میں اس قدر مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں جس جس کو توفیق ہو وہ انہیں اپنے گھروں میں لے جائے اور ان کی مہمانی کرے۔ ایک دفعہ ایسا ہی واقعہ پیش آیا مسجد میں ایک مہمان آگیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کی طرف دیکھ کر فرمایا۔ کیا اس مہمان کو اپنے گھر لے جا سکتے ہو۔ اس نے عرض کیا کہ بہت اچھا۔ چنانچہ وہ اسے لے کر گھر پہنچا اور بیوی سے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سپرد آج ایک مہمان کیا ہے کیا گھر میں کچھ کھانے کے لئے موجود ہے اس نے کہا کہ بس ایک آدمی کا کھانا ہے میری تو یہ خواہش تھی کہ آج میں اور تم دونوں فاقہ کرتے اور کھانا بچوں کو کھلا دیتے مگر اب چونکہ مہمان آ گیا ہے اس لئے اب کھانا مہمان کو کھلا دیتے ہںں اور بچوں کو کسی طرح تھپکا کر میں سلا دیتی ہوں۔ صحابی نے کہا یہ تو ہو جائے گا مگر ایک بڑی مشکل ہے بیوی نے پوچھا وہ کیا۔ خاوند کہنے لگا۔ جب یہ کھانا کھانے بیٹھا تو اصرار کرے گا کہ ہم بھی اس کے ساتھ کھانا کھائیں پھرہم کیا کریں گے۔ (اس وقت تک پردہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا) بیوی کہنے لگی کہ میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے اور وہ یہ کہ جب وہ کھانے بیٹھے تو میں اور تم دونوں اس کے ساتھ بیٹھ جائیں گے اس وقت تم مجھے کہنا کہ روشنی کم ہے فتیلہ ذرا اوپر کر دو۔ اور میں روشنی کو تیز کرنے کے بہانے سے اٹھوں گی اور چراغ کو بجھا دوں گی تا کہ اندھیرا ہو جائے اور وہ دیکھ نہ سکے کہ ہم اس کے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں یا نہیں چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ دستر خوان بچھا تو خاوند کہنے لگا روشنی کچھ کم ہے ذرا اونچی کر دو۔ بیوی اٹھی اور اس نے چراغ کو بجھا دیا۔ جب اندھیرا ہو گیا تو خاوند کہنے لگا آگ سلگاؤ اور چراغ روشن کرو۔ بیوی نے کہا آگ تو ہے نہیں۔ اس نے کہا ہمسایہ سے مانگ لو اس نے کہا اس وقت ہمسائے کو کون جا کر تکلیف دے۔ بہتر یہی ہے کہ اسی طرح کھا لیا جائے۔ مہمان بھی کہنے لگا اگر اندھیرا ہو گیا ہے تو کیا حرج ہے اسی طرح کھانا کھائیں گے۔ چنانچہ اندھیرے میں ہی میاں بیوی اس کے قریب بیٹھ گئے اور مہمان نے کھانا کھانا شروع کر دیا۔ خاوند اور بیوی دونوں نے چونکہ مشورہ کیا ہوا تھا اس لئے مہمان تو کھاتا رہا اور وہ دونوں خالی منہ ہلاتے رہے اور یہ ظاہر کرتے رہے گویا وہ بھی کھانا کھا رہے ہیں۔ خیر کھانا ختم ہوا اور مہمان چلا گیا اللہ تعالیٰ کو ان دونوں میاں بیوی کی یہ بات ایسی پسند آئی کہ رات کو اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر دے دی۔ جب صبح ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا لوگو کچھ پتہ بھی ہے کہ رات کو کیا ہوا۔ صحابہؓنے کہا: یا رسول اللہ ہمیں تو معلوم نہیں اس پر آپؐ نے یہ تمام واقعہ بیان کیا اور فرمایا کہ جب میاں بیوی دونوں اندھیرے میں بیٹھے خالی منہ ہلا رہے تھے تو اس وقت اللہ تعالیٰ ان کی اس حرکت پر عرش پر ہنسا۔ پھر آپ نے ہنستے ہوئے فرمایا جب اس بات پر اللہ تعالیٰ ہنسا ہے تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کیوں نہ ہنسے۔ اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ صحابہ مہمان نوازی کو کس قدر اہم قرار دیتے تھے اور کس طرح مسجدوں کی طرح ان کے گھر کے دروازے مہمانوں کے لئے کھلے رہتے تھے۔ (سیر روحانی جلد اول صفحہ 162۔ 163)
ابوہریرہ! اور پیؤ۔۔۔
حضرت ابوہریرہؓ کی دین کے لیے فاقہ کشی
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری چھ سالوں میں داخل اسلام ہوا تھا اور چونکہ اسلام پر کئی سال گذر چکے تھے اس لئے میں نے دل میں تہیہ کر لیا کہ اب میں ہر وقت مسجد میں بیٹھا رہوں گا تا کہ جب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات فرمائیں میں فوراً سن لوں اور اسے دوسرے لوگوں تک پہنچا دوں۔ چنانچہ انہوں نے مسجد میں ڈیرہ لگا لیا اور ہر وقت وہیں بیٹھے رہتے۔ ان کا بھائی انہیں کبھی کبھی کھانا بھجوا دیتا۔ لیکن اکثر انہیں فاقے سے رہنا پڑتا۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ بعض دفعہ کئی کئی دن کا فاقہ ہو جاتا اور شدت بھوک کی وجہ سے میں بے ہوش ہو جاتا۔ لوگ یہ سمجھتے کہ مجھے مرگی کا دورہ ہو گیا ہے اور وہ میرے سر میں جوتیاں مارنے لگ جاتے کیونکہ عرب میں ان دنوں مرگی کا علاج یہ سمجھا جاتا تھا کہ آدمی کے سر پر جوتیاں ماری جائیں۔ غرض میں تو بھوک کے مارے بے ہوش ہوتا اور وہ مجھے مرگی زدہ سمجھ کر میرے سر پر تڑا تڑ جوتے مارتے چلے جاتے۔ کہتے ہیں اسی طرح ایک دفعہ میں مسجد میں بھوکا بیٹھا تھا اور حیران تھا کہ اب کیا کروں مانگ مَیں نہیں سکتا تھا کیونکہ مانگتے ہوئے مجھے شرم آتی تھی اور حالت یہ تھی کہ کئی دن سے روٹی کا ایک لقمہ تک پیٹ میں نہیں گیا تھا۔ آخر میں مسجد کے دروازہ پر کھڑا ہو گیا کہ شاید کوئی مسلمان گذرے اور میری حالت کو دیکھ کر اسے خود ہی خیال آ جائے اور وہ کھانا بھجوا دے۔
اتنے میں مَیں نے دیکھا کہ حضرت ابوبکرؓ چلے آ رہے ہیں میں نے ان کے سامنے قرآن کریم کی ایک آیت پڑھ دی جس میں بھوکوں کو کھانا کھلانے کا ذکر آتا ہے اور میں نے کہا کہ اس کے معنی کیا ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس آیت کی تفسیر بیان کی اور آگے چل پڑے۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ مجھے بڑا غصہ آیا اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ مجھے کیا تفسیر کم آتی ہے کہ یہ مجھے اس کی تفسیر بتانے لگے ہیں۔ خیر وہ گئے تو حضرت عمرؓ آ گئے میں نے اپنے دل میں کہا یہ بڑا زیرک انسان ہے یہ ضرور میرے مقصد کو سمجھ لے گا چنانچہ میں نے ان کے سامنے بھی قرآن کی وہی آیت پڑھ دی اور کہا کہ اس کے معنی کیا ہیں انہوں نے بھی اس آیت کی تفسیر کی اور آگے چل پڑے مجھے پھر غصہ آیا کہ کیا عمرؓ مجھ سے زیادہ قرآن جانتے ہیں؟ میں نے تو اس لئے معنی پوچھے تھے کہ انہیں میری حالت کا احساس ہو مگر یہ ہیں کہ معنی کر کے آگے چل دیئے۔ جب حضرت عمرؓ بھی چلے گئے تو میں سخت حیران ہوا کہ اب کیا کروں اتنے میں میرے کانوں میں ایک نہایت ہی شیریں آواز آئی کہ ابوہریرہ کیابھوک لگی ہے۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا ادھر آؤ۔ ہمیں بھی آج فاقہ تھا مگر ابھی ایک مسلمان نے دودھ کا پیالہ تحفہ بھیجا ہے پھر آپ نے فرمایا مسجد میں نظر ڈالو۔ اگر کوئی اور شخص بھی بھوکا بیٹھا ہو تو اسے بھی اپنے ساتھ لے آؤ۔
حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں میں مسجد میں گیا تو ایک نہ دو بلکہ اکٹھے چھ آدمی میرے ساتھ نکل آئے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ آج شامت آئی۔ دودھ کا پیالہ تو مجھ اکیلے کے لئے بھی بمشکل کفایت کرتا مگر اب تو کچھ بھی نہیں بچے گا۔ بھلا جہاں سات آدمی دودھ پینے والے ہوں وہاں کیا بچ سکتا ہے مگر خیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا میں ان کو اپنے ہمراہ لے کر کھڑکی کے پاس پہنچا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دودھ کا پیالہ بجائے مجھے دینے کے ان میں سے ایک کے ہاتھ میں دے دیا۔ میں نے کہا۔ بس اب خیر نہیں۔ اس نے دودھ چھوڑنا نہیں اور میں بھوکا رہ جاؤں گا۔ خیر اس نے کچھ دودھ پیا اور پھر چھوڑ دیا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ شکر ہے کچھ تو دودھ بچا ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دودھ دینے کی بجائے ایک دوسرے شخص کو پیالہ دیا کہ اب تم پیو۔ جب وہ بھی سیر ہو کر پی چکا تو میں نے کہا اب تو میری باری آئے گی اور میں اس بات کا منتظر تھا کہ اب پیالہ مجھے دیا جائے گا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پیالہ لے کر ایک اور شخص کو دے دیا اور میں نے سمجھا کہ بس اب خیر نہیں۔ اب تو دودھ کا بچنا بہت ہی مشکل ہے مگر اس کے پینے کے بعد بھی دودھ بچ رہا۔ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور کو پیالہ دیا پھر اس کے بعد ایک اور کو دیا اسی طرح چھ آدمی جو میرے ساتھ آئے تھے سب کو بار ی باری دیا اور آخر میں مجھے دیا اور فرمایا ابوہریرہ اب تم دودھ پیو۔
(میں ضمناً یہ ذکر کر دینا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ اس قسم کے معجزات کوئی خیالی باتیں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء و صلحاء کو ایسے نشانات بھی دیتا ہے تاکہ ماننے والے اپنے یقین اور ایمان میں ترقی کریں مگر یہ نشانات صرف مومنوں کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں تا کہ ایمان میں غیب کا پہلو قائم رہے۔)
غرض حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں میں نے پیالہ لیا اور دودھ پینا شروع کر دیا اور اس قدر پیا اس قدر پیا کہ میری طبیعت بالکل سیر ہو گئی اور میں نے پیالہ رکھ دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابو ہریرہ ؓاور پیو میں نے پھر کچھ دودھ پیا اور پیالہ رکھ دیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوہریرہ اور پیو۔ (سیر روحانی جلد اول صفحہ 166 ۔ 167)