سوچنے کی باتیں
میرے خدا نے آج رات تمہارے خداوند کو مار دیا ہے
شہنشاہ کسرٰی کا عبرتناک انجام
یہودی مسلمانوں کے ہمیشہ ہی ممنون احسان رہے ہیں مگر وہ مسلمانوں کے ممنون احسان بھی رہے اور پھر دشمنی بھی کرتے رہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر بڑے بڑے احسانات کئے تھے مگر انہوں نے ہمیشہ آپ کی مخالفت کی اور بیرونی حکومتوں کو آپ کے خلاف اکسانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ جب انکے تاجر ایران جاتے تو وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہمیشہ کسریٰ کے کان بھرتے۔ اسی طرح خطوں میں بھی اسے لکھتے رہتے کہ عرب میں ایک ایسا ایسا آدمی طاقت پکڑتا جاتا ہے اگر اس کی حکومت قائم ہو گئی تو وہ ایران پر حملہ کر دے گا۔ بادشاہ کم عقل تھا وہ یہودیوں کے اس فریب میں آ گیا اور اس نے یمن کے گورنر کو خط لکھا کہ عرب میں جو نیا مدعی نبوت پیدا ہوا ہے تم اسے گرفتار کر کے میرے پاس بھیج دو۔ یمن کے گورنر نے دو آدمی بھجوائے اس وقت ایران کی طاقت ویسی ہی تھی جیسے اس وقت امریکہ اور روس کی ہے اور عرب والوں کی حالت ایسی تھی جیسے سرحدی قبائل کی ہے۔ گورنر یمن نے اپنے سپاہیوں کو بھیجتے ہوئے ان کے ذریعہ آپ کو یہ پیغام بھجوایا کہ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ آپ کا قصور کیا ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ آپ چلے آئیں۔ میں آپ کی سفارش کر کے شاہ ایران کے پاس بھجوا دوں گا کہ اگر اس شخص کا کوئی قصور بھی ہے تو اسے معاف کر دیا جائے۔ وہ دونوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں گورنر یمن نے آپ کو اپنے ساتھ لانے کے لئے بھیجا ہے اور یہ یہ پیغام بھی دیا ہے اگر آپ نے انکار کیا تو بادشاہ کی فوجیں عرب پر دھاوا بول دیں گی اور تمام ملک ایک مصیبت میں مبتلا ہو جائے گا اس لئے مناسب یہی ہے کہ آپ ہمارے ساتھ تشریف لے چلیں۔ گورنر یمن نے وعدہ کیا ہے کہ وہ آپ کی سفارش کر دیں گے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس کا جواب تمہیں پھر دوں گا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی شروع کی کہ وہ اس معاملہ میں آپ کی مدد فرمائے۔ دوسرے دن جب وہ ملے تو آپ نے فرمایا کہ ایک دن اور ٹھہر جاؤ۔ جب تیسرا دن ہوا تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے کہا آج ہمیں آئے ہوئے تین دن ہو گئے ہیں۔ آپ ساتھ چلئے ایسا نہ ہو کہ یہ معاملہ بگڑ جائے اور تمام عرب پر مصیبت آ جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیکھو اپنے گورنر سے جا کر کہہ دو کہ میرے خدا نے آج رات تمہارے خداوند کو مار دیا ہے۔ ایرانی لوگ اپنے بادشاہ کو خداوند کہا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا آپ یہ کیا فرماتے ہیں۔ اپنے آپ پر اور اپنی قوم پر رحم کیجئے اور ہمارے ساتھ چلئے۔ آپ نے فرمایا: میں نے تمہیں جواب تو دے دیا ہے۔ جاؤ اور گورنر یمن کو یہی بات کہہ دو۔ وہ واپس آ گئے اور انہوں نے یمن کے گورنر سے یہ بات کہہ دی۔ اس نے سن کر کہا کہ یا تو یہ شخص پاگل ہے اور یا واقعہ میں خدا تعالیٰ کا نبی ہے۔ ہم چند دن انتظار کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ آیا اس کی بات سچی ثابت ہوتی ہے یا نہیں۔
تھوڑے دنوں کے بعد یمن کی بندرگاہ پر ایران کا ایک جہاز لنگر انداز ہوا اور اس میں سے ایک سفیر اترا جو یمن کے گورنر کے نام ایک شاہی خط لایا۔ یمن کے گورنر نے اسے دیکھا تو اس پر ایک نئے بادشاہ کی مہر تھی۔ اس نے خط اپنے ہاتھ میں لیتے ہی درباریوں سے کہا وہ بات ٹھیک معلوم ہوتی ہے جو اس عرب نے کہی تھی۔ اس نے خط کھولا تو وہ کسریٰ کے بیٹے کا تھا اور اس میں یہ لکھا تھا کہ ہمارا باپ نہایت ظالم اور سفاک انسان تھا اور اس نے تمام ملک میں ایک تباہی مچا رکھی تھی۔ ہم نے فلاں رات اسے مار دیا ہے اور اب ہم خود اس کی جگہ تخت پر بیٹھ گئے ہیں۔ اب تمہارا فرض ہے کہ تم اپنی مملکت کے لوگوں سے ہماری اطاعت کا اقرار لو، اور ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ انہی سفاکیوں میں سے جو ہمارے باپ نے کیں ایک یہ بھی سفاکی تھی کہ اس نے عرب کے ایک شخص کے متعلق لکھا تھا کہ اسے گرفتار کر کے ہمارے پاس بھجوا دیا جائے، ہم اس حکم کو منسوخ کرتے ہیں۔
یہی حقیقت عَلَّمَہٗ شَدِیدُ القُویٰ میں بیان کی گئی ہے کہ ایک طاقتور ہستی اس کی نگران ہوگی اور اس کو چھیڑنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔ رسول کریمﷺ کی زندگی میں بہت سے مواقع ایسے آئے ہیں جنہوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آپ کو چھیڑنا خدا تعالیٰ کو چھیڑنا تھا۔ (سیر روحانی جلد دوم صفحہ 47 ۔ 49)