سوچنے کی باتیں
پادری کا ایک گال پر تھپڑ کھا کر۔۔۔
چونکہ ہر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے کئی قسم کی طاقتیں پیدا کی تھیں اس لئے کوئی راستہ بھی ہونا چاہئے تھا۔ چنانچہ یہ راستہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی تجویز کر دیا مگر یہ راستہ مشکل نہیں بلکہ فرماتا ہے ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہُ خدا نے مطابق فطرت تعلیم دی ہے ایسا راستہ نہیں بنایا کہ جس پر انسان چل ہی نہ سکے۔ جیسے انجیل نے کہہ دیا کہ اگر کوئی شخص تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تُو اپنا دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دے۔ اب یہ تعلیم بظاہر بڑی خوش کن معلوم ہوتی ہے مگر کوئی شخص اس پر عمل نہیں کر سکتا۔
مصر کا ایک لطیفہ مشہور ہے وہاں چند سال ہوئے ایک عیسائی مبلغ نے تقریریں شروع کر دیں اور لوگوں پر ان کا اثر ہونا شروع ہو گیا۔ ایک پرانی طرز کا مسلمان وہاں سے جب بھی گذرتا دیکھتا کہ پادری وعظ کر رہا ہے اور مسلمان خاموشی سے سن رہے ہیں، اس نے سمجھا کہ شائد کوئی مسلمان مولوی اس کی باتوں کا جواب دے گا۔ مگر وہ اس طرف متوجہ نہ ہوئے اور خود اس کی علمی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ اس کے اعتراضوں کا جواب دے سکتا اس لئے وہ اندر ہی اندر کڑھتا رہتا۔ ایک روز خدا تعالیٰ نے اس کے دل میں جوش پیدا کر دیا اور جب پادری وعظ کرنے لگا تو اس نے زور سے اس کے منہ پر تھپڑ دے مارا۔ پادری نے سمجھا کہ اگر میں نے اسکا مقابلہ نہ کیا تو یہ اور زیادہ دلیر ہو جائے گا چنانچہ اس نے مارنے کے لئے اپنا ہاتھ اٹھایا۔ مصری کہنے لگا: میں نے تو اپنے مذہب پر عمل کیا ہے تم اپنے مذہب پر عمل کر کے دکھا دو۔ تمہاری تعلیم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک گال پر تھپڑ مارے تو اس کی طرف تمہیں اپنا دوسرا گال بھی پھیر دینا چاہئے۔ میں تو اس امید میں تھا کہ تم اپنے مذہب کی تعلیم کے مطابق اپنا دوسرا گال بھی میری طرف پھیر دو گے مگر تم تو مقابلہ کے لئے تیار ہو گئے ہو۔ اگر تمہاری تعلیم قابل عمل ہی نہیں تو تم وعظ کیا کرتے ہو؟ پادری اس وقت جوش کی حالت میں تھا اس نے زور سے اسے گھونسا مار کر کہا اس وقت تو میں تمہارے قرآن پر ہی عمل کروں گا۔ انجیل پر عمل کروں گا تو تم مجھے اور مارا کرو گے۔ تو ہماری شریعت میں کوئی بات ایسی نہیں جو ناممکن العمل ہو۔ وہ کہتا ہے اگر تم سے کوئی شخص بدی کے ساتھ پیش آتا ہے تو تم عفو سے کام لو بشرطیکہ تم سمجھو کہ عفو سے اس کی اصلاح ہو جائے گی۔ لیکن اگر تم سمجھتے ہو کہ عفو سے اس کے اندر نیکی اور تقویٰ پیدا نہیں ہوگا بلکہ وہ اور زیادہ بدی پر دلیر ہو جائے گا تو تم اس سے انتقام بھی لے سکتے ہو۔ (سیر روحانی جلد اول صفحہ 196 ۔ 197)
شراب انسانی عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے
دنیوی شراب تو عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے، صحت برباد کر دیتی ہے، انسان کو خمار ہو جاتا ہے، وہ گند بکنے لگ جاتا ہے اور اس کے خیالات ناپاک اور پریشان ہو جاتے ہیں۔ بے شک شراب میں کچھ فائدے بھی پائے جاتے ہیں لیکن انہی عیوب کی وجہ سے دنیا کی پچاس ساٹھ سالہ زندگی بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا کہ شراب نہ پیؤ۔ پھر ہمیشہ کی زندگی میں اس کے استعمال کو جائز کیوں رکھا گیا اور کیا ایسا تو نہیں ہوگا کہ اس شراب کو پی کر میں اپنی عبودیت کو بھول جاؤں اس پرمیں نے دیکھا کہ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے:۔ لَافِیْھَا غَوْلٌ وَلَا ھُمْ عَنْھَا یُنْزَفُوْنَ (الصافات:۸۴) غول کے معنی عربی زبان میں عقل اور بدن کی صحت کے چلے جانے اور خمار کے پیدا ہو جانے کے ہیں۔ پس لَافِیْھَا غَوْلٌ کے معنی یہ ہوئے کہ اس سے عقل ضائع نہیں ہوگی، بدن کی صحت پر کوئی برا اثر نہیں پڑے گا اور پینے کے بعد خمار نہیں ہوگا۔ یہ تین عیب ہیں جو دنیا میں شراب پینے سے پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے مینا بازار کی جو شراب ملے گی اس سے نہ عقل خراب ہو گی اور نہ صحت کو کوئی نقصان پہنچے گا۔
لیکن اس مینا بازار میں جو شراب ملے گی اس میں ان نقائص میں سے کوئی نقص نہیں ہوگا۔
اسی طرح نزف کے معنی ہوتے ہیں ذَھَبَ عَقْلُہُ اَوْسُکِّرَ یعنی عقل کا چلے جانا اور بہکی بہکی باتیں کرنا۔ یہ بات بھی ہر شرابی میں نظر آ سکتی ہے۔ خود مجھے ایک شرابی کا واقعہ یاد ہے جو میرے ساتھ پیش آیا۔ اب تو میں حفاظت کے خیال سے سیکنڈ کلاس میں سفر کیا کرتا ہوں لیکن جس زمانہ کی یہ بات ہے اس زمانہ میں میں تھرڈ کلاس میں سفر کیا کرتا تھا مگر اتفاق ایسا ہوا کہ اُس دن تھرڈ کلاس میں سخت بھیڑ تھی۔ میں نے سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ لے لیا۔ مگر سیکنڈ کلاس کا کمرہ بھی ایسا بھرا ہوا تھا کہ بظاہر اس میں کسی اور کے لئے کوئی گنجائش نظر نہیں آتی تھی۔ چھوٹا سا کمرہ تھا اور اٹھارہ بیس آدمی اس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ بہرحال جب میں اس کمرہ میں گُھسا تو ایک صاحب جو اندر بیٹھے ہوئے تھے، وہ مجھے دیکھتے ہی فوراً کھڑے ہو گئے اور لوگوں سے کہنے لگے تمہیں شرم نہیں آتی کہ خود بیٹھے ہو اور یہ کھڑے ہیں۔ ان کے لئے بھی جگہ بناؤ تا کہ یہ بیٹھیں۔ میں نے سمجھا کہ گو میں انہیں نہیں جانتا مگر یہ میرے واقف ہوں گے۔ چنانچہ ان کے زور دینے پر لوگ ادھر ادھرہو گئے اور میرے بیٹھنے کے لئے جگہ نکل آئی۔ جب میں بیٹھ گیا تو وہی صاحب کہنے لگے کہ آپ کیا کھائیں گے؟ میں نے کہا: آپ کی بڑی مہربانی ہے مگر یہ کھانے کا وقت نہیں۔ میں لاہور جا رہا ہوں وہاں میرے عزیز ہیں، وہاں سے کھانا کھا لوں گا۔ کہنے لگے، نہیں پھر بھی کیا کھائیں گے؟ میں نے کہا :عرض تو کر دیا کہ کچھ نہیں۔ اس پر وہ اور زیادہ اصرار کرنے لگے اور کہنے لگے۔ اچھا فرمائیے کیا کھائیں گے؟ میں نے کہا :بہت بہت شکریہ میں کچھ نہیں کھاؤں گا۔ کہنے لگے :اچھا تو پھر فرمائیے نا کہ آپ کیا کھائیں گے؟ میں اب گھبرایا کہ یہ کیا مصیبت آ گئی ہے۔ اس سے پہلے میں نے کسی شرابی کو نہیں دیکھا تھا۔ اس لئے میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ وہ اپنے ہوش میں نہیں۔ اتنے میں ایک سکھ صاحب کمرہ مںن داخل ہوئے۔ اس پر وہ پھر کھڑے ہو گئے اور لوگوں سے کہنے لگے تمہیں شرم نہیں آتی کمرہ میں ایک بھلا مانس آیا ہے اور تم اس کے لئے جگہ نہیں نکالتے۔ اور یہ بات کچھ ایسے رعب سے کہی کہ لوگوں نے اس کے لئے بھی جگہ نکال دی۔ جب وہ سکھ صاحب بیٹھ چکے تو دو منٹ کے بعد وہ ان سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے سردار صاحب کچھ کھائیں گے؟ میں نے اس وقت سمجھا کہ یہ شخص پاگل ہے۔ اتنے میں ایک اور شخص کمرہ میں داخل ہو گیا۔ اس پر وہ انہی سردار صاحب کو جن کو چند منٹ پہلے بڑے اعزاز سے بٹھا چکا تھا، کہنے لگا تمہیں شرم نہیں آتی کہ خود بیٹھے ہو اور اس کے لئے جگہ نہیں نکالتے۔ آخر میں نے کسی سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ تو اس نے بتایا کہ انہوں نے شراب پی ہوئی ہے۔ اس پر میں اگلے سٹیشن کے آتے ہی وہاں سے کھسک گیا اور میں نے شکر کیا کہ اس نے مجھ کو جھاڑ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔ تو شراب انسانی عقل پر بالکل پردہ ڈال دیتی ہے۔ (سیر روحانی جلد اول صفحہ 242 ۔ 244)