سوچنے کی باتیں
کاؤنٹ ٹالسٹائے اٹھو اور شہزادے کو مارو
ٹالسٹائے روس کا ایک مشہور مصنف گذرا ہے جو لینن اور مارکس وغیرہ کے بعد ان چوٹی کے لوگوں مںر سے تھا جنہوں نے بالشویزم کی اشاعت میں سب سے بڑا حصہ لیا ہے۔ اب بھی دنیا کی اکثر زبانوں میں اس کی تصانیف کے تراجم پائے جاتے ہیں۔ اس شخص کا ایک دادا سات آٹھ پشت پہلے پیٹر بادشاہ کے زمانہ میں اس کا دربان ہوا کرتا تھا۔ ایک دن بادشاہ کو کوئی ضروری کام تھا اور وہ اپنی قوم کی بہتری کے لئے کوئی سکیم سوچ رہا تھا۔ اس نے ٹالسٹائے کو حکم دیا کہ آج کسی شخص کو اندر آنے کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ اگر کوئی شخص اندر آئے گا تو میرا دماغ مشوش ہو جائے گا اور میں سکیم کو پوری طرح تیار نہیں کر سکوں گا۔ وہ ٹالسٹائے کو تاکید کر کے اپنے کمرہ میں آ گیا۔ مگر بدقسمتی سے اسی وقت ایک شہزادہ آیا اور اس نے اندر داخل ہونا چاہا۔ ٹالسٹائے نے اپنے ہاتھ اس کے دروازہ کے آگے پھیلا دیئے اور کہا آپ اندر نہیں جا سکتے، بادشاہ کا حکم ہے کہ کسی شخص کو اندر نہ آنے دیا جائے۔ اس وقت تک روس کا قانون ابھی منظم نہیں ہوا تھا اور لارڈوں، نوابوں اور شاہی خاندان والوں کے بڑے حقوق سمجھے جاتے تھے۔ اس دستور کے مطابق شہزادہ کو قلعہ کے اندر داخل ہونے سے کوئی روک نہیں سکتا تھا بلکہ ان سے اتر کر بعض اور لوگوں کے لئے بھی یہی دستور تھا۔ جب دربان نے شہزادے کو روکا تو وہ کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا: کیا تم نہیں جانتے کہ میں کون ہوں؟ اس نے کہا: میں خوب جانتا ہوں آپ فلاں گرینڈ ڈیوک ہیں۔ اس نے کہا: کیا تم کو معلوم نہیں کہ مجھ کو ہر وقت اندر جانے کی اجازت ہے؟ دربان نے جواب دیا میں خوب جانتا ہوں۔ یہ سن کر وہ پھر آگے بڑھا اور اندر داخل ہونے لگا۔ دربان نے پھر اسے روکا اور کہا حضور بادشاہ سلامت کا حکم ہے کہ آج کسی شخص کو اندر نہ آنے دیا جائے۔ اسے سخت غصہ آیا اس نے کوڑا اٹھایا اور دربان کو مارنا شروع کیا کچھ دیر مارنے کے بعد اس نے سمجھا کہ اب اسے ہوش آ گیا ہوگا وہ پھر اندر داخل ہونے لگا مگر ٹالسٹائے پھر راستہ روک کر کھڑا ہو گیا اور اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔ حضور بادشاہ کا حکم ہے کہ کوئی شخص اندر داخل نہ ہو۔ شہزادے نے پھر اسے مارنا شروع کر دیا۔ وہ سرجھکاکر مار کھاتا رہا مگر جب تیسری دفعہ شہزادہ اندر داخل ہونے لگا تو پھر اس نے ہاتھ پھیلا دیئے اور کہا۔ اندر جانے کی اجازت نہیں۔ بادشاہ نے منع کیا ہوا ہے۔ شہزادے نے پھر اسے مارنا شروع کر دیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ جب پہلی دفعہ شہزادے نے دربان کو مارا تو شور کی آواز بادشاہ کے کان تک پہنچ گئی اور اس نے بالا خانہ کی کھڑی سے یہ نظارہ دیکھنا شروع کر دیا۔
جب تیسری دفعہ شہزادہ اسے مار رہا تھا تو بادشاہ نے اسے آواز دی کہ ٹالسٹائے ادھر آؤ۔ ٹالسٹائے اندر گیا اور اس کے ساتھ شہزادہ بھی بڑے غصے کی حالت میں بادشاہ کے پاس پہنچا اور اس نے کہا۔ آج دربان نے میری سخت ہتک کی ہے۔ بادشاہ نے پوچھا کیا ہوا؟ شہزادے نے کہا مںد اندر آنا چاہتا تھا مگر ٹالسٹائے مجھے اندر نہیں آنے دیتا تھا۔ بادشاہ نے ایسی شکل بنا کر کہ گویا اس واقعہ کا اسے کوئی علم نہیں کہا۔ ٹالسٹائے تم نے شہزادے کو اندر داخل ہونے سے کیوں روکا۔ اس نے کہا حضور آپ کا حکم تھا کہ آج کسی شخص کو اندر داخل نہ ہونے دیا جائے۔ بادشاہ نے شہزادے کی طرف دیکھا اور کہا کہ کیا اس نے تم کو بتایا تھا کہ میں نے یہ حکم دیا ہے کہ کسی شخص کو اندر نہ آنے دیا جائے۔ اس نے کہا :بتایا تو تھا مگر شہزادے کو کوئی دربان روک نہیں سکتا۔ بادشاہ نے کہا میں جانتا ہوں کہ شہزادے کو کوئی روک نہیں سکتا مگر بادشاہ روک سکتا ہے۔ تم نے شہزادہ ہو کر قانون کی بے حرمتی کی ہے اور اس نے دربان ہو کر قانون کی عظمت کو سمجھا ہے اور پھر باوجود اس کے کہ اس نے تمہیں بتا دیا تھا کہ یہ میرا حکم ہے پھر بھی تم نے اسے مارا۔ اب اس کی سزا یہ ہے کہ تم اس دربان کے ہاتھوں اسی طرح مار کھاؤ جس طرح تم نے اسے مارا ہے۔ اس کے بعد اس نے ٹالسٹائے کو کہا: ٹالسٹائے اٹھو اور اس شہزادے کو مارو۔ روسی قانون کے مطابق کسی فوجی کو کوئی غیر فوجی نہیں مار سکتا۔ شہزادے نے کہا میں فوجی ہوں اور یہ ٹالسٹائے سویلین ہے۔ یہ مجھے مار نہیں سکتا۔ بادشاہ نے کہا: کیپٹن ٹالسٹائے میں تمہیں کہتا ہوں کہ تم شہزادے کو مارو۔ اس نے مارنے کے لیے کوڑا اٹھایا تو شہزادے نے کہا: میں زار روس کا جرنیل ہوں اور جرنیل کو کوئی غیر جرنیل نہیں مار سکتا۔ بادشاہ نے کہا: جنرل ٹالسٹائے میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ تم شہزادے کو مارو۔ اس پر شہزادے نے پھر روسی کانسٹی ٹیوشن کا حوالہ دے کر کہا کہ کسی نواب کو کوئی غیر نواب نہیں مار سکتا۔ بادشاہ نے کہا: اچھا کاؤنٹ ٹالسٹائے اٹھو اور شہزادے کو مارو۔ گویا دربان سے اسی وقت اس نے اسے کاؤنٹ بنا دیا اور شہزادے کو اس کے ہاتھوں سے سزا دلوائی۔ (سیر روحانی جلد دوم صفحہ 44 ۔ 46)