سیرت مسیح موعود علیہ السلام
اخبارِ غیبیہ اور سلسلۂ الہامات کی کثرت
اِس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بعض الہامات بھی لکھے ہیں جن میں سے بعض کا بیان کر دینا یہاں مناسب ہوگا کیونکہ بعد کے واقعات سے اُن کے غلط یا درست ہونے کا پتہ لگتا ہے:۔
“دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُسے قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور اور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کردے گا”۔ (تذکرہ صفحہ104)
“یَاتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ وَیَا تُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ“۔ (تذکرہ صفحہ 50)
“بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے”۔ (تذکرہ صفحہ10)
یہ وہ الہامات ہیں جو براہین احمدیہ 1884ء میں شائع کیے گئے تھے جبکہ آپ دنیا میں ایک کسمپرس آدمی کی حالت میں تھے لیکن اِس کتاب کا نکلنا تھا کہ آپ کی شہرت ہندوستان میں دور دور تک پھیل گئی اور بہت لوگوں کی نظریں مصنّف براہین احمدیہ کی طرف لگ گئیں کہ یہ اسلام کا کشتی بان ہوگا اور اِسے دشمنوں کے حملوں سے بچائے گا اور یہ خیال اُن کا درست تھا لیکن خدا تعالیٰ اِسے اور رنگ میں پورا کرنے والا تھا اور واقعات یہ ثابت کرنے والے تھے کہ جو لوگ اِن دنوں اُس پر جان فدا کرنے کے لیے تیار ہوگئے تھے وہی اُس کے خون کے پیاسے ہو جائیں گے اور ہر طرح اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے اور آپ کی قبولیّت کسی انسانی امداد کے سہارے نہیں بلکہ خداتعالیٰ کے زبردست حملوں کے ذریعہ سے مقدر تھی۔
آپ کے بھائی صاحب کی وفات
1884ء میں آپ کے بھائی صاحب بھی فوت ہوگئے اور چونکہ وہ لاولد تھے اِس لیے اُن کے وارث بھی آپ ہی تھے لیکن اس وقت بھی آپ نے اُن کی بیوہ کی دلدہی کے لیے جائیداد پر قبضہ نہ کیا اور اُن کی درخواست پر نصف حصہ تو مرزا سلطان احمد صاحب کے نام پر لکھ دیا جنہیں آپ کی بھاوج نے رسمی طورپر متبنّٰی قرار دیا تھا آپ نے تبنّیت کے سوال پر تو صاف لکھ دیا کہ اسلام میں جائز نہیں لیکن مرزا غلام قادر مرحوم کی بیوہ کی دلدہی اور خبرگیری کے لیے اپنی جائیداد کا نصف حصہ بخوشی خاطر دے دیا اور باقی نصف پر بھی خود قبضہ نہ کیا بلکہ مدت تک آپ کے رشتہ داروں ہی کے قبضہ میں رہا۔