سیرت مسیح موعود علیہ السلام
ایک سفر
اکتوبر 1897ء میں آپ کو ایک شہادت پر ملتان جانا پڑا۔ وہاں شہادت دے کرجب واپس تشریف لائے تو کچھ دنوں لاہور بھی ٹھہرے۔ یہاں جن جن گلیوں سے آپ گذرتے ان میں لوگ آپ کو گالیاں دیتے اور پکا ر پکار کر بُرے الفاظ آپ کی شان میں زبان سے نکالتے۔ میری عمر اس وقت آٹھ سال کی تھی اور میں بھی اس سفر میں آپ کے ساتھ تھا۔ میں اس مخالفت کی جو لوگ آپ سے کرتے تھے وجہ تو نہیں سمجھ سکتا تھا اس لیے یہ دیکھ کر مجھے سخت تعجب آتا کہ جہاں سے آپ گذرتے ہیں لوگ آپ کے پیچھے کیوں تالیاں پیٹتے ہیں، سیٹیاں بجاتے ہیں ؟ چنانچہ مجھے یاد ہے کہ ایک ٹنڈا شخص جس کا ایک پہنچا کٹا ہوا تھا اور بقیہ ہاتھ پر کپڑا باندھا ہوا تھا نہیں معلوم کہ ہاتھ کے کٹنے کا ہی زخم باقی تھا یا کوئی نیا زخم تھا وہ بھی لوگوں میں شامل ہوکر غالباً مسجد وزیرخاں کی سیڑھیوں پر کھڑا تالیاں پیٹتا اور اپنا کٹا ہوا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارتا تھا اور دوسروں کے ساتھ مل کر شور مچا رہا تھا : ہائے ہائے مرزانٹھ گیا،، (یعنی میدان مقابلہ سے فرار کر گیا) اور میں اس نظارہ کو دیکھ کر سخت حیران تھا خصوصاًاس شخص پر اور دیر تک گاڑی سے سرنکال کر اس شخص کو دیکھتا رہا۔ لاہور سے حضرت صاحب سیدھے قادیان تشریف لے آئے۔
پنجاب میں طاعون اور حضور کی احتیاطی تدابیر
اُسی سال ملک پنجاب میں طاعون پھوٹا اور جب کہ تمام مذہبی آدمی اُن تدابیر کے سخت مخالف تھے جو گورنمنٹ نے انسدادِ طاعون کے متعلق نافذ کی تھیں۔ آپ نے بڑے زور سے اُن کی تائید کی اور اپنی جماعت کو آگاہ کیا کہ اِن تدابیر کو اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ اسلام کا حکم ہے کہ ہر قسم کی تدابیر جو حفظانِ صحت کے متعلق ہوں اُن پر عمل کیاجائے اور اِس طرح آپ نے امنِ عامہ کے قیام میں بہت بڑا کام کیا۔ کیونکہ اس وقت لوگوں میں عام طور پر یہ بات پھیلائی جاتی تھی کہ گورنمنٹ خود ہی طاعون پھیلاتی ہے اور جو تدابیر اس کے انسداد کی ظاہر کی جاتی ہیں وہ درحقیقت اِس وباء کو پھیلانے والی ہیں اور اسلام کے بھی خلاف ہیں۔ چنانچہ علماء نے بڑے زور کے ساتھ فتویٰ دے دیا تھا کہ طاعون کے دنوں میں گھر سے نکلنا سخت گناہ ہے اور اِس طرح ہزاروں جاہلوں کی موت کا باعث ہوگئے۔ چوہے مارنے کی گولیاں تقسیم کی گئیں تو انہی کو باعث طاعون قرار دیا گیا۔ پنجرے دیئے گئے تو اُن پر اعتراض کیا گیا۔ غرض اِس طرح شورش برپا تھی اور بعض جگہ حکّامِ سرکار پر حملے بھی ہوئے۔ ایسے وقت میں آپ کے اعلان اور آپ کی جماعت کے عمل کو دیکھ کر دوسرے لوگوں کو بھی ہدایت ہوئی اور آپ نے مسلمانوں کو آگاہ کیا کہ طاعون کے دنوں میں گھروں سے باہر نکلنا اور بستی سے باہر رہنا اسلام کی رُو سے منع نہیں بلکہ منع صرف یہ بات ہے کہ ایک شہر سے بھاگ کر دوسرے شہر میں جائے کیونکہ اس سے بیماری کے دوسرے شہروں میں پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
قانونِ سڈیشن پر گورنمنٹ کو میموریل اور تجاویز
یہ ایام مذہبی بحث مباحثہ کے سبب سخت خطرناک ہو رہے تھے اور 1897ء اور 1898ء سَن خاص طور پر ممتاز تھے۔ آپس کی مخالفت سخت بڑھ رہی تھی اور سیاسی مفسدہ پرداز اس مذہبی دشمنی سے فائدہ اُٹھا کر گورنمنٹ کے خلاف لوگوں کو اُکسانے میں مشغول تھے اور اسی شرارت کو محسوس کر کے گورنمنٹ نے 1897ء میں سڈیشن کا قانون بھی پاس کیا تھا لیکن باوجود اس قانون کے ہندوستان امن سے فساد کی طرف منتقل ہو رہاتھا اور اس قانون کا کوئی عمدہ نتیجہ نہ نکلا تھا کیونکہ ہندوستان ایک مذہبی ملک ہے اور یہاں کے لوگ جتنے مذہب کے معاملہ میں جوش میں آ سکتے ہیں اتنے سیاسی امور میں نہیں آتے۔ لیکن اِس قانون میں مذہبی لڑائی جھگڑوں کا سدِّباب نہیں کیا گیا تھا اور نہ اس کی ضرورت گورنمنٹ اُس وقت محسوس کرتی تھی مگر جس بات کو مدبرانِ حکومت سمجھنے سے قاصر تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک گوشۂ تنہائی میں بیٹھے اسے دیکھ رہے تھے چنانچہ ستمبر 1897ء میں ایک میموریل تیار کر کے لارڈ ایلجن بہادر وائسرائے ہند کی خدمت میں ارسال کیا اور اُسے چھاپ کر شائع بھی کر دیا۔ اُس میں آپ نے ہِزایکسی لینسی کو بتایا کہ فتنہ و فساد کا اصلی باعث مذہبی جھگڑے ہیں اِن کے نتیجہ میں جو شورش لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتی ہے اُسے بعض شریر گورنمنٹ کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ پس قانون سڈیشن میں مذہبی سخت کلامی کو بھی داخل کرنا چاہیے اور اس کے لیے آپ نے تین تجاویز بھی پیش کیں۔
- اوّل یہ کہ قانون پاس کر دینا چاہیے کہ ہر ایک مذہب کے پَیرو اپنے مذہب کی خوبیاں تو بے شک بیان کریں لیکن دوسرے مذہب پر حملہ کرنے کی ان کو اجازت نہ ہوگی۔ اس قانون سے نہ تو مذہبی آزادی میں فرق آوے گا اور نہ کسی خاص مذہب کی طرفداری ہوگی اور کوئی وجہ نہیں کہ کسی مذہب کے پَیرو اِس بات پر ناخوش ہوں کہ اُن کو دوسرے مذاہب پر حملہ کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی۔
- اگر یہ طریق منظور نہ ہو تو کم سے کم یہ کیا جائے کہ کسی مذہب پر ایسے حملے کرنے سے لوگوں کو روک دیا جائے جو خود اُن کے مذہب پر پڑتے ہوں۔ یعنی اپنے مخالف کے خلاف وہ ایسی باتیں پیش نہ کریں جو خود ان کے ہی مذہب میں موجود ہوں۔
- اگر یہ بھی ناپسند ہو تو گورنمنٹ ہر ایک فرقہ سے دریافت کرکے اس کی مسلّمہ کتب مذہبی کی ایک فہرست تیار کرے اور یہ قانون پاس کر دیا جائے کہ اس مذہب پر ان کتابوں سے باہر کوئی اعتراض نہ کیا جائے کیونکہ جب اعتراضات کی بنیاد صرف خیالات یا جھوٹی روایات پر ہو جنہیں اس مذہب کے پَیرو تسلیم ہی نہیں کرتے تو پھر اُن کے رُو سے اعتراض کرنے کا نتیجہ باہمی بغض و عداوت ترقی کرنے کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔
اگر اس تحریک پر گورنمنٹ اُس وقت عمل کرتی تو جو فتنے اور فساد ہندوستان میں پہلے دنوں نمودار ہوئے وہ کبھی نہ ہوتے لیکن گورنمنٹ نے اس موقعہ پر اس ضرورت کو محسوس نہ کیا اور اس کے مدبرانِ سلطنت کی آنکھ اُن جراثیم کی بڑھنے والی طاقت کو نہ دیکھ سکی جنہیں اِس نبی وقت نے اُن کی ابتدائی حالت میں دیکھ لیا تھا مگر 1908ء میں پورے دس سال بعد گورنمنٹ کو مجبورًا یہ قانون پاس کرنا پڑا کہ ایک مذہب کے لوگوں کو دوسرے مذہب پر حملہ کرنا اور ناروا سختی کرنی درست نہیں اور اگر کوئی ایسا کرے تو اس پمفلٹ یا مضمون کے چھاپنے والے پریس یا اخبار کی ضمانت لی جائے یا اُسے ضبط کیا جائے۔ لیکن یہ قانون اس قدر عرصہ کے بعد پاس ہوا کہ اس کا وہ اثر اب نہیں ہو سکتا جو اُس وقت ہو سکتا تھا۔ دراصل ہندوستان کے سارے فتنے کی جڑ مذہبی جھگڑا ہے جو بعض شریروں کی عجیب پیچ درپیچ سازشوں کے ساتھ گورنمنٹ کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے اور جب کسی مذہب کے پیرؤں کی سب سے پیاری چیز (اُن کے مذہب) پر گندے الفاظ میں حملہ کیا جائے تو جاہل عوام کو گورنمنٹ سے بدظن کرنے کے لیے اِسی قدر کہہ دینا کافی ہے کہ سارا قصور گورنمنٹ کا ہے جس کے ماتحت ہمیں اِس قدر دکھ دیا جاتا ہے اور وہ لوگ اس ظالم کا پیچھا چھوڑ کر محسن گورنمنٹ کے سَر ہو جاتے ہیں۔