سیرت مسیح موعود علیہ السلام
بچپن ہی میں عبادتِ الٰہی کا شوق
اِس تحریر سے جو حضرت مرزا صاحب نے اپنے والد کی اس حالت کے متعلق لکھی ہے جس میں آپ کے زمانۂ طفولیّت اور جوانی کے وقت سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسے رنگ میں آپ کی تربیت فرمائی تھی کہ جس کی وجہ سے دنیا کی محبت آپ کے دل میں پیدا ہی نہ ہونے پائی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے والد اور بڑے بھائی کی دنیاوی حالت اُس وقت بھی ایسی تھی کہ وہ دنیاوی لحاظ سے معزز و ممتاز کہلاتے تھے اور حکّام اُن کا ادب و لحاظ کرتے تھے لیکن پھر بھی اُن کا دنیا کے پیچھے پڑنا اور اپنی ساری عمر اس کے حصول کے لیے خرچ کر دینا لیکن پھر بھی اس کا اِس حد تک ان کو حاصل نہ ہونا جس حد تک کہ وہ اُس پر خاندانی حق خیال کرتے تھے اس پاک دل کو جو اپنے اندر کسی قسم کی مَیل نہ رکھتا تھا یہ بتا دینے کے لیے کافی تھا کہ دنیا روزے چند اور آخرت باخداوند۔ چنانچہ اُس نے اپنے بچپن کی عمر سے اس سبق کو ایسا یاد کیا کہ اپنی وفات تک نہ بھلایا اور گو دنیا طرح طرح کے خوبصورت لباسوں میں اس کے سامنے آئی اور اُس کو اپنے راستہ سے ہٹا دینے کی کوشش کی لیکن اس نے کبھی اس کی طرف التفات نہ کی اور اس سے ایسی جدائی اختیار کی کہ پھر اس سے کبھی نہ ملا۔
غرض مرزا صاحب کو اپنی بچپن کی عمر سے ہی اپنے والد کی زندگی میں ایک ایساتلخ نمونہ دیکھنے کا موقع ملاکہ دنیا سے آپ کی طبیعت سرد ہوگئی اور جب آپ بہت ہی بچہ تھے تب بھی آپ کی تمام تر خواہشات رضائے الٰہی کے حصول میں ہی لگی ہوئی تھیں۔ چنانچہ آپ کے سوانح نویس شیخ یعقوب علی صاحب آپ کے سوانح میں ایک عجیب واقعہ جو آپ کی نہایت بچپن کی عمر کے متعلق ہے تحریر کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب آپ کی عمر نہایت چھوٹی تھی تو اُس وقت آپ ایک اپنی ہم سن لڑکی کو جس سے بعد میں آپ کی شادی بھی ہوگئی، کہا کرتے تھے کہ
“نامرادے دعا کر کہ خدا میرے نماز نصیب کرے”
اِس فقرہ سے جو نہایت بچپن کی عمر کا ہے پتہ چلتا ہے کہ نہایت پچپن کی عمر سے آپ کے دل میں کیسے جذبات موجزن تھے اور آپ کی خواہشات کا مرکز کس طرح خدا ہی خدا ہو رہا تھا اور ساتھ ہی اس ذہانت کا پتہ چلتا ہے جو بچپن کی عمر سے آپ کے اندر پیدا ہوگئی تھی کیونکہ اس فقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت بھی آپ تمام خواہشات کو پورا کرنے والا خدا تعالیٰ کو ہی سمجھتے تھے اور عبادت کی توفیق کا دینا بھی اسی پر موقوف جانتے تھے۔ نماز پڑھنے کی خواہش کرنا اور اس خواہش کو پورا کرنے والا خدا تعالیٰ کو ہی جاننا اور پھر اس گھر میں پرورش پا کر جس کے چھوٹے بڑے دنیا کو ہی اپنا خدا سمجھ رہے تھے، ایک ایسی بات ہے جو سوائے کسی ایسے دل کے جو دنیا کی ملونی سے ہر طرح پاک ہو اور دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دینے کے لیے خدا تعالیٰ سے تائید یافتہ ہو، نہیں نکل سکتی۔