سیرت مسیح موعود علیہ السلام
حصولِ تعلیم کا زمانہ
جس زمانہ میں آپ پیدا ہوئے ہیں وہ نہایت جہالت کا زمانہ تھا اور لوگوں کی تعلیم کی طرف بہت ہی کم توجہ تھی اور سکھوں کے زمانہ کی بات تو یہاں تک مشہور ہے کہ اگر کسی کے نام کسی دوست کا کوئی خط آ جاتا تو اس کے پڑھوانے کے لیے اُسے بہت مشقت اور محنت برداشت کرنی پڑتی تھی اور بعض دفعہ مدت تک خط پڑا رہتا تھا اور بہت سے رؤساء بالکل اَن پڑھ تھے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے چونکہ آپ سے بہت بڑا کام لینا تھا اِس لیے آپ کی تعلیم کا اس نے آپ کے والد کے دل میں شوق پیدا کر دیا اور باوجود اِن دنیاوی تفکرات کے جن میں وہ مبتلا تھے انہوں نے اِس جہالت کے زمانہ میں بھی اپنی اولاد کو اس زمانہ کے مناسبِ حال تعلیم دلانے میں کوتاہی نہ کی۔ چنانچہ جب آپ بچہ ہی تھے تو آپ کے والد نے ایک استاد آپ کی تعلیم کے لیے ملازم رکھا جن کا نام فضل الٰہی تھا۔ اُن سے حضرت مرزا صاحب نے قرآن مجید اور فارسی کی چند کتب پڑھیں۔ اِس کے بعد دس سال کی عمر میں فضل احمد نام ایک استاد ملازم رکھے گئے۔ یہ اُستاد نہایت نیک اور دیندار آدمی تھا اور جیسا کہ حضرت مرزا صاحب خود تحریر فرماتے ہیں، آپ کو نہایت محنت اور محبت سے تعلیم دیتا تھا۔ اس اُستاد سے حضرت صاحب نے صَرف و نحو کی بعض کتب پڑھیں۔ اِس کے بعد سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں مولوی گل علی شاہ آپ کی تعلیم کے لیے ملازم رکھے گئے اِن سے نحو منطق اور حکمت کی چند کتب آپ نے پڑھیں اور فن طبابت کی چند کتب اپنے والد صاحب سے جو ایک نہایت تجربہ کار طبیب تھے، پڑھیں اور یہ تعلیم اُن دنوں کے لحاظ سے جن میں آپ تعلیم پا رہے تھے، بہت بڑی تعلیم تھی۔ لیکن درحقیقت اس کام کے مقابلہ میں جو آپ نے کرنا تھا کچھ بھی نہ تھی۔ چنانچہ ہم نے بعض وہ آدمی دیکھے ہیں جو آپ کے ساتھ اُن اُستادوں سے پڑھتے تھے جن کو آپ کے والد صاحب نے آپ کی تعلیم کے لیے ملازم رکھا تھا اور وہ نہایت معمولی لیاقت کے آدمی تھے اور ان کو ایک معمولی خواندہ آدمی سے زیادہ وقعت نہیں دی جا سکتی اور جو استاد آپ کی تعلیم کے لیے ملازم رکھے گئے تھے وہ بھی کوئی بڑے عالم نہ تھے کیونکہ اس وقت علم بالکل مفقود تھا اور فارسی اور عربی کی چند کتب کا پڑھ لینے والا بڑا عالم خیال کیا جاتا تھا۔ پس جن حالات کے ماتحت اور جن اُستادوں کی معرفت آپ کی تعلیم ہوئی وہ ایسے تھے کہ اُن کی وجہ سے آپ کو کوئی ایسی تعلیم نہیں مل سکتی تھی جو اس کام کے لیے آپ کو تیار کر دیتی جس کے کرنے پر آپ نے مبعوث ہونا تھا۔ ہاں اِس قدر اس تعلیم کا نتیجہ ضرور ہوا کہ آپ کو فارسی اور عربی پڑھنی آ گئی اور فارسی میں اچھی طرح سے اور عربی میں قدرے قلیل آپ بولنے بھی لگ گئے تھے۔ اس سے زیادہ آپ نے کوئی تعلیم نہیں حاصل کی اور دینی تعلیم تو باقاعدہ طور پر کسی استاد سے حاصل نہیں کی۔ ہاں آپ کو مطالعہ کا بہت شوق تھا اور آپ اپنے والد صاحب کے کتب خانہ کے مطالعہ میں اِس قدر مشغول رہتے تھے کہ بارہا آپ کے والد صاحب کو ایک تو اِس وجہ سے کہ آپ کی صحت کو نقصان نہ پہنچے اور ایک اِس وجہ سے کہ آپ اس طرف سے ہٹ کر اُن کے کام میں مددگار ہوں، آپ کو روکنا پڑتا تھا۔