سیرت مسیح موعود علیہ السلام
علیحدگی ملازمت اور پیروی مقدمات
قریباً چار سال آپ سیالکوٹ میں ملازم رہے لیکن نہایت کراہت کے ساتھ۔ آخر والد صاحب کے لکھنے پر فوراً استعفیٰ دے کر واپس آگئے اور اپنے والد صاحب کے حکم کے ماتحت اُن کے زمینداری کے مقدمات کی پیروی میں لگ گئے لیکن آپ کا دل اس کام پر نہ لگتا تھا۔ چونکہ آپ اپنے والدین کے نہایت فرمانبردار تھے اِس لیے والد صاحب کا حکم تو نہ ٹالتے تھے لیکن اس کام میں آپ کا دل ہرگز نہ لگتا تھا۔ چنانچہ اُن دنوں کے آپ کو دیکھنے والے لوگ بیان کرتے ہیں کہ بعض اوقات کسی مقدمہ میں ہار کر آتے تو آپ کے چہرہ پر بشاشت کے آثار ہوتے تھے اور لوگ سمجھتے کہ شاید فتح ہوگئی ہے۔ پوچھنے پر معلوم ہوتا کہ ہار گئے ہیں۔ جب وجہ دریافت کی جاتی تو فرماتے کہ ہم نے جو کچھ کرنا تھا کر دیا، منشائے الٰہی یہی تھا اور اس مقدمہ کے ختم ہونے سے فراغت تو ہوگئی ہے۔ یادِ الٰہی میں مصروف رہنے کا موقعہ ملے گا۔ یہ زمانہ آپ کا عجیب کشمکش کا زمانہ تھا۔ والد صاحب چاہتے تھے کہ آپ یا تو اپنے زمینداری کے کام میں مصروف ہوں یا کوئی ملازمت اختیار کریں اور آپ اِن دونوں باتوں سے متنفر تھے اور اِس لیے اکثر طعن و تشنیع کا شکار رہتے تھے۔ جب تک آپ کی والدہ صاحبہ زندہ رہیں آپ پر ایک سِپر کے طور پر رہیں لیکن اُن کی وفات کے بعد آپ اپنے والد صاحب اور بھائی صاحب کی ملامت کا اکثر نشانہ ہو جاتے اور بعض دفعہ وہ لوگ سمجھتے تھے کہ آپ کا دنیاوی کاموں سے متنفر ہونا سُستی کی وجہ سے ہے۔ چنانچہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ بعض دفعہ آپ کے والد نہایت افسردہ ہو جاتے تھے اور کہتے تھے کہ میرے بعد اس لڑکے کا کس طرح گزارہ ہوگا اور اِس بات پر ان کو سخت رنج تھا کہ یہ اپنے بھائی کا دستِ نگر رہے گا اور کبھی کبھی وہ آپ کے مطالعہ پر چڑ کر آپ کو مُلّاں بھی کہہ دیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ ہمارے گھر میں مُلّاں کہاں سے پیدا ہو گیا ہے۔ لیکن باوجود اس کے خود اُن کے دل میں بھی آپ کا رعب تھا اور جب کبھی وہ اپنی دنیاوی ناکامیابی کو یاد کرتے تھے تو دینی باتوں میں آپ کے استغراق کو دیکھ کر خوش ہوتے تھے اور اس وقت فرماتے تھے کہ اصل کام تو یہی ہے جس میں میرا بیٹا لگا ہوا ہے۔ لیکن چونکہ اُن کی ساری عمر دنیا کے کاموں میں گذری تھی اِس لیے افسوس کا پہلو غالب رہتا تھا۔ مگر حضرت مرزا صاحب اِس بات کی بالکل پرواہ نہ کرتے تھے بلکہ کسی کسی وقت قرآن حدیث اپنے والد صاحب کو بھی سنانے کے لیے بیٹھ جاتے تھے اور یہ ایک عجیب نظارہ تھا کہ باپ اور بیٹا دو مختلف کاموں میں لگے ہوئے تھے اور دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کوشکار کرنا چاہتا تھا۔ باپ چاہتا تھا کہ کسی طرح بیٹے کو اپنے خیالات کا شکار کرے اور دنیاوی عزت کے حصول میں لگا دے اور بیٹا چاہتا تھا کہ اپنے باپ کو دنیا کے خطرناک پھندہ سے آزاد کر کے اللہ تعالیٰ کی محبت کی لَو لگا دے۔ غرض یہ عجیب دن تھے جن کا نظارہ کھینچنا قلم کا کام نہیں ہر ایک شخص اپنی اپنی طاقت کے مطابق اپنے دل کے اندر ہی اِس کا نقشہ کھینچ سکتا ہے۔ ان دنوں آپ کے سامنے پھر ملازمت کا سوال پیش ہوا اور ریاست کپور تھلہ کے محکمہ تعلیم کا افسر بنانے کی تجویز ہوئی لیکن آپ نے نامنظور کر دیا اور اپنے والد صاحب کے ہموم و غموم کو دیکھ کر اِس بات کو ہی پسند فرمایا کہ جس تنگی سے بھی گذارہ ہو گھر پر ہی رہیں اور ان کے کاموں میں جہاں تک ہو سکے ہاتھ بٹائیں۔ گو جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے آپ کا دل اِس کام کی طرف بھی راغب نہ تھا لیکن آپ اپنے والد صاحب کے حکم کے ماتحت اُن کے آخری ایام کو جہاں تک ہو سکے باآرام کرنے کے لیے اس کام میں لگے ضرور رہتے تھے گو فتح و شکست سے آپ کو دلچسپی نہ تھی۔