سیرت مسیح موعود علیہ السلام
لاہور کے رؤساء کو دعوت اور حضور کی تقریر
چونکہ رؤساء ہند بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ساری دنیا کے رؤساء دین سے نسبتاً غافل ہوتے ہیں، اس لیے آپ نے اُن کو کچھ سنانے کے لیے یہ تجویز فرمائی کہ لاہور کے ایک غیر احمدی رئیس کی طرف سے جو آپ کا بہت معتقد تھا رؤساء کو دعوت دی اور دعوتِ طعام میں کچھ تقریر فرمائی۔ تقریر کسی قدر لمبی ہوگئی جب گھنٹہ کے قریب گزر گیا تو ایک شخص نے ذرا گھبراہٹ کا اظہار کیا۔ اس پر بہت سے لوگ بول اُٹھے کہ کھانا تو ہم روز کھاتے ہیں لیکن یہ کھانا (غذائے روح) تو آج ہی میسر ہوا ہے۔ آپ تقریر جاری رکھیں۔ دو اڑھائی گھنٹہ تک آپ کی تقریر ہوتی رہی۔ اس تقریر کی نسبت لوگوں میں مشہور ہو گیا کہ آپ نے اپنا دعویٔ نبوت واپس لے لیا۔ لاہور کے اُردو روزانہ اخبارِ عام نے یہ خبر شائع کر دی۔ اس پر آپ نے اُسی وقت اس کی تردید فرمائی اور لکھا کہ ہمیں دعویٔ نبوت ہے اور ہم نے اسے کبھی واپس نہیں لیا۔ ہمیں صرف اِس بات سے انکار ہے کہ ہم کوئی نئی شریعت لائے ہیں۔ شریعت وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے۔
حضور علیہ السلام کا وصال
آپ کو ہمیشہ دستوں کی شکایت رہتی تھی۔ لاہور تشریف لانے پر یہ شکایت زیادہ ہوگئی اور چونکہ ملنے والوں کا ایک تانتا رہتا تھا اس لیے طبیعت کو آرام بھی نہ ملا۔ آپ اسی حالت میں تھے کہ الہام ہوا اَلرَّحِیْلُ ثُمَّ الرَّحِیْلُ یعنی کوچ کرنے کا وقت آگیا پھر کوچ کرنے کا وقت آ گیا۔ اس الہام پر لوگوں کو تشویش ہوئی لیکن فوراً قادیان سے ایک مخلص دوست کی وفات کی خبر پہنچی اور لوگوں نے یہ الہام اُس کے متعلق سمجھا اور تسلی ہوگئی لیکن آپ سے جب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ نہیں یہ سلسلہ کے ایک بہت بڑے شخص کی نسبت ہے، وہ شخص اس سے مُراد نہیں۔ اس الہام سے والدہ صاحبہ نے گھبرا کر ایک دن فرمایا کہ چلو واپس قادیان چلیں۔ آپ نے جواب دیا کہ اَب واپس جانا ہمارے اختیار میں نہیں۔ اَب اگر خدا ہی لے جائے گا تو جا سکیں گے۔ مگر باوجود اِن الہامات اور بیماری کے آپ اپنے کام میں لگے رہے اور اس بیماری ہی میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں صلح و آشتی پیدا کرنے کے لیے آپ نے ایک لیکچر دینے کی تجویز فرمائی اور لیکچر لکھنا شروع کر دیا اور اس کا نام “پیغام صلح” رکھا۔ اس سے آپ کی طبیعت اور بھی کمزور ہو گئی اور دستوں کی بیماری بڑھ گئی۔ جس دن یہ لیکچر ختم ہونا تھا اُس رات الہام ہوا:۔
“مکن تکیہ برعمر ناپائیدار“
یعنی نہ رہنے والی عمر پر بھروسہ نہ کرنا۔ آپ نے اُسی وقت یہ الہام گھر میں سنا دیا اور فرمایا کہ ہمارے متعلق ہے۔ دن کو لیکچر ختم ہوا اور چھپنے کے لیے دے دیا گیا۔ رات کے وقت آپ کو دست آیا اور سخت ضعف ہو گیا۔ والدہ صاحبہ کو جگایا۔ وہ اُٹھیں تو آپ کی حالت بہت کمزور تھی۔ انہوں نے گھبرا کر پوچھا کہ آپ کو کیا ہوا ہے؟ فرمایا وہی جو مَیں کہا کرتا تھا (یعنی بیماری موت) اس کے بعد پھر ایک اور دست آیا۔ اس سے بہت ہی ضعف ہو گیا فرمایا مولوی نور الدین صاحب کو بلواؤ (مولوی صاحب جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے بہت بڑے طبیب تھے) پھر فرمایا کہ محمود (مصنف رسالہ ہذا) اور میر صاحب (آپ کے خسر) کو جگاؤ۔ میری چارپائی آپ کی چارپائی سے تھوڑی ہی دور تھی۔ مجھے جگایا گیا اُٹھ کر دیکھا تو آپ کو کرب بہت تھا۔ ڈاکٹر بھی آ گئے تھے انہوں نے علاج شروع کیا لیکن آرام نہ ہوا۔ آخر انجکشن کے ذریعہ بعض ادویات دی گئیں۔ اس کے بعد آپ سو گئے۔ جب صبح کا وقت ہوا اُٹھے اور اُٹھ کر نماز پڑھی۔ گلا بالکل بیٹھ گیا تھا کچھ فرمانا چاہا لیکن بول نہ سکے۔ اس پر قلم دوات طلب فرمائی لیکن لکھ بھی نہ سکے۔ قلم ہاتھ سے چھٹ گئی۔ اس کے بعد لیٹ گئے اور تھوڑی دیر تک غنودگی سی طاری ہوگئی اور قریباً ساڑھے دس بجے دن کے آپ کی روح پاک اُس شہنشاہِ حقیقی کے حضور حاضر ہوگئی جس کے دین کی خدمت میں آپ نے اپنی ساری عمر صرف کر دی تھی اِنَّا لِلّہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ بیماری کے وقت صرف ایک ہی لفظ آپ کی زبان مبارک پر تھا اور وہ لفظ اللہ تھا۔
آپ کی وفات کی خبر بجلی کی طرح تمام لاہور میں پھیل گئی۔ مختلف مقامات کی جماعتوں کو تاریں دے دی گئیں اور اُسی روز شام یا دوسرے دن صبح کے اخبارات کے ذریعہ کُل ہندوستان کو اس عظیم الشان انسان کی وفات کی خبر مل گئی۔ جہاں وہ شرافت جس کے ساتھ آپ اپنے مخالفوں کے ساتھ برتاؤ کرتے تھے ہمیشہ یاد رہے گی، وہاں وہ خوشی بھی کبھی نہیں بھلائی جا سکتی جس کا اظہار آپ کی وفات پر آپ کے مخالفوں نے کیا۔ لاہور کی پبلک کا ایک گروہ نصف گھنٹہ کے اندر ہی اس مکان کے سامنے اکٹھا ہو گیا جس میں آپ کا جسم مبارک پڑا تھا اور خوشی کے گیت گا گا کر اپنی کورباطنی کا ثبوت دینے لگا۔ بعضوں نے تو عجیب عجیب سوانگ بنا کر اپنی خباثت کا ثبوت دیا۔
آپ کے ساتھ جو محبت آپ کی جماعت کو تھی اس کا حال اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ بہت تھے جو آپ کی نعش مبارک کو صریحاً اپنی آنکھوں کے سامنے پڑا دیکھتے تھے مگر وہ اس بات کے قبول کرنے کے لیے تو تیار تھے کہ اپنے حواس کو تو مختل مان لیں لیکن یہ باور کرنا انہیں دشوار و ناگوار تھا کہ اُن کا حبیب ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہو گیا ہے۔ پہلےمسیح کے حواریوں اور اس مسیح کے حواریوں کی اپنے مرشد کے ساتھ محبت میں یہ فرق ہے کہ وہ تو مسیح کے صلیب پر سے زندہ اُتر آنے پر حیران تھے اور یہ اپنے مسیح کے وصال پر ششدر تھے۔ اُن کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ مسیح زندہ کیونکر ہے اور اِن کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ مسیح فوت کیونکر ہوا۔ آج سے تیرہ سَو سال پہلے ایک شخص جو خاتم النبیین ہو کر آیا تھا اُس کی وفات پر نہایت سچے دل سے ایک شاعر نے یہ صداقت بھرا ہوا شعر کہا تھا کہ
کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیَ عَلَیَّ النَّاظِرٗ
مَنْ شَاءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرٗترجمہ: کہ “تو میری آنکھ کی پتلی تھا۔ تیری موت سے میری آنکھ اندھی ہوگئی۔ اب تیرے بعد کوئی شخص پڑا مرا کرےہمیں اُس کی پرواہ نہیں کیونکہ ہم تو تیری ہی موت سے ڈر رہے تھے”۔
آج تیرہ سَو سال کے بعد اُس نبیؐ کے ایک غلام کی وفات پر پھر وہی نظارہ چشمِ فلک نے دیکھا کہ جنہوں نے اُسے پہچان لیا تھا اُن کا یہ حال تھا کہ یہ دنیا اُن کی نظروں میں حقیر ہوگئی اور اُن کی تمام تر خوشی اگلے جہان میں ہی چلی گئی بلکہ اب تک کہ آٹھ سال گزر چکے ہیں اُن کا یہی حال ہے اور خواہ صدی بھی گزر جائے مگر وہ دن اُن کو کبھی نہیں بھول سکتے جب کہ خدا تعالیٰ کا پیارا رسول اُن کے درمیان چلتا پھرتا تھا۔
درد انسان کوبیتاب کر دیتا ہے اور مَیں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کا ذکر کر کے کہیں سے کہیں چلا گیا۔ مَںت نے ابھی بیان کیا ہے کہ ساڑھے دس بجے آپ فوت ہوئے۔ اُسی وقت آپ کے جسم مبارک کو قادیان میں پہنچانے کا انتظام کیا گیا اور شام کی گاڑی میں ایک نہایت بھاری دل کے ساتھ آپ کی جماعت نعش لے کرروانہ ہوئی اور آپ کا الہام پورا ہوا جو قبل از وقت مختلف اخبارات میں شائع ہو چکا تھا کہ “اُن کی لاش کفن میں لپیٹ کر لائے ہیں “۔
بٹالہ پہنچ کر آپ کا جنازہ فوراً قادیان پہنچایا گیا اور قبل اس کے کہ آپ کو دفن کیا جاتا قادیان کی موجودہ جماعت نے (جن میں کئی سَو قائم مقام باہر کی جماعتوں کا بھی شامل تھا ) بالاتفاق آپ کا جانشین اور خلیفہ حضرت مولوی حاجی نورالدین صاحب بھیروی کو تسلیم کر کے اُن کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور اس طرح الوصیۃ کی وہ شائع شدہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرؓ کھڑے کیے گئے تھے، میری جماعت کے لیے بھی خدا تعالیٰ اسی رنگ میں انتظام فرمائے گا۔ اس کے بعد خلیفۂ وقت نے آپ کا جنازہ پڑھا اور دوپہر کے بعد آپ دفن کیے گئے اور اس طرح آپ کا وہ الہام کہ(“ستائیس کو ایک واقعہ ہمارے متعلق”) جو دسمبر 1902ء میں ہوا اور مختلف اخبارات میں شائع ہو چکا تھا پورا ہوا کیونکہ 26 مئی کو آپ فوت ہوئے اور 27 تاریخ کو آپ دفن کیے گئے اور اس الہام کے ساتھ ایک اور الہام بھی تھا جس سے اس الہام کے معنی واضح کر دیے گئے تھے اور وہ الہام یہ تھا “وقت رسید” یعنی تیری وفات کا وقت آ گیا ہے۔
آپ کی وفات پر انگریزی و دیسی ہندوستان کے سب اخبارات نے باوجود مخالفت کے اِس بات کا اقرار کیا کہ اِس زمانہ کے آپ ایک بہت بڑے شخص تھے۔
٭٭٭٭٭ تمت بالخیر ٭٭٭٭٭