سیرت مسیح موعود علیہ السلام
لیکچر سیالکوٹ
سیالکوٹ آپ نے پانچ روز قیام فرمایا اور علاوہ تبلیغ کے جو آپ گھر پر ملنے والوں کو کرتے رہے آپ کا ایک پبلک لیکچر بھی وہاں ہوا۔ جس وقت لیکچر کا اعلان ہوا اُسی وقت سیالکوٹ کے علماء نے بڑے زور سے اعلان کیا کہ کوئی شخص مرزاصاحب کا لیکچر سُننے نہ جائے اور یہ بھی فتویٰ دے دیا کہ جو شخص آپ کا لیکچرسُننے جائے گا اُس کا نکاح ٹوٹ جائے گا( یہ ایک زبردست ہتھیار اُس وقت سے علماء ہند کے پاس ہے جس کے ذریعہ سے وہ جاہل مسلمانوں پر اپنی حکومت قائم رکھتے ہیں اور جس کے لیے جھوٹی سچی کوئی بھی دلیل اُن کے پاس نہیں ) اور اِس اعلان کو ہی کافی خیال نہ کیا گیا بلکہ جس مکان میں آپ کا لیکچر تھا اُس کے مقابل چند مخالف مولویوں نے اپنے لیکچروں کا اِعلان کر دیا تا کہ لوگ آپ کے لیکچروں میں شامل نہ ہونے پائیں اور باہر کے باہر ہی رُک جائیں۔ علاوہ ازیں کچھ آدمی لیکچر گاہ کے دروازہ پر بھی مقرر کر دیے کہ اندر جانے والوں کو روکیں اور بتائیں کہ آپ کے لیکچر میں جانا گناہ ہے اور بعض تو اِس حد تک بڑھے کہ آنے والوں کو پکڑ پکڑ کر دوسری طرف لے جاتے تھے مگر باوجود اِس کے لوگ بڑی کثرت سے آئے اور جس وقت لوگوں نے سُنا کہ آپ لیکچر گاہ میں تشریف لے آئے ہیں تو مخالف علماء کا لیکچر چھوڑ کر وہاں بھاگ آئے اور اِس قدر شوق سے لوگوں نے حصّہ لیا کہ سرکاری ملازم بھی باوجود تعطیل کا دن نہ ہونے کے لیکچر میں شامل ہوئے۔
یہ لیکچر بھی چھپا ہوا ہے اور مولوی عبدالکریم صاحب نے پڑھ کر سُنایا تھا۔ دوران لیکچر میں بعض لوگوں نے شور مچانا چاہا۔ پولیس افسر نے جو ایک یوروپین صاحب تھے، نہایت ہوشیاری سے اُن کو روکا اور ایک بڑی لطیف بات فرمائی کہ تم مسلمانوں کو اِن کے لیکچر پر گھبرانے کی کیا وجہ ہے، تمہاری تو یہ تائید کرتے ہیں اور تمہارے رسول کی عظمت قائم کرتے ہیں۔ ناراض ہونے کا حق تو ہمارا تھا کہ جن کے خدا (مسیح) کی وفات ثابت کرنے پر یہ اِس قدر زور دیتے ہیں۔ غرض افسرانِ پولیس کی ہوشیاری کے باعث کوئی فتنہ وفساد نہ ہوا۔ اِس لیکچر میں ایک خصوصیّت یہ تھی کہ آپ نے پہلی مرتبہ اپنے آپ کو اہل ہنودپر اتمام حُجت کرنے کے لیے پبلک میں بحیثیت کرشن پیش کیا۔ جب لیکچر ختم ہوکر گھر کو واپس آنے لگے تو پھر بعض لوگوں نے پتھر مارنے کا ارادہ کیا لیکن پولیس نے اِس مفسدہ کو بھی روکا۔ لیکچر کے بعد دوسرے دن آپ واپس تشریف لے آئے اور اِس موقعہ پر بھی پولیس کے انتظام کی وجہ سے کوئی شرارت نہ ہو سکی۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ ہمیں دُکھ دینے کا کوئی موقعہ نہیں ملا تو بعض لوگ شہر سے کچھ دور باہر جاکر ریل کی سٹرک کے پاس کھڑے ہوگئے اور چلتی ٹرین پر پتھر پھینکے لیکن اس کا نتیجہ سوائے کچھ شیشے ٹوٹ جانے کے اور کیا ہو سکتا تھا۔
مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات اور سفرِ دہلی کے حالات
11 اکتوبر 1905ء کو آپ کے ایک نہایت مخلص مرید مولوی عبدالکریم صاحب جو مختلف موقعوں پر آپ کے لیکچر سُنایا کرتے تھے ایک لمبی بیماری کے بعد فوت ہوئے اور آپ نے قادیان میں ایک عربی مدرسہ کھولنے کا ارشاد فرمایا جس میں دین اسلام سے واقف علماء پیدا کیے جائیں تا کہ فوت ہونے والے علماء کی جگہ خالی نہ رہے۔ مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات سے چند روز بعد آپ دہلی تشریف لے گئے اور وہاں قریباً پندرہ دن رہے۔ اُس وقت دہلی گوپندرہ سال پہلے کی دہلی نہ تھی جس نے دیوانہ وار شور مچایا تھا لیکن پھر بھی آپ کے جانے پر خوب شور ہوتا رہا۔ اس پندرہ دن کے عرصہ میں آپ نے دہلی میں کوئی پبلک لیکچر نہ دیا لیکن گھر پر قریباً روزانہ لیکچر ہوتے رہے جن میں جگہ کی تنگی کے سبب دو اڑھائی سَو سے زیادہ آدمی ایک وقت میں شامل نہںی ہو سکتے تھے۔ ایک دو دن لوگوں نے شور بھی کیا اور ایک دن حملہ کر کے گھر پر چڑھ جانے کا بھی ارادہ کیا لیکن پھر بھی پہلے سفر کی نسبت بہت فرق تھا۔
اِس سفر سے واپسی پر لدھیانہ کی جماعت نے دو دن کے لیے آپ کو لدھیانہ میں ٹھہرایا اور آپ کا ایک پبلک لیکچر نہایت خیروخوبی سے ہوا۔ وہاں امرتسر کی جماعت کا ایک وفدپہنچا کہ آپ ایک دو روز امرتسر بھی ضرور قیام فرمائیں جسے حضرتؑ نے منظور فرمایا اور لدھیانہ سے واپسی پر امرتسر میں اُتر گئے۔ وہاں بھی آپ کے ایک عام لیکچر کی تجویز ہوئی۔ امرتسر سلِسلہ احمدیہ کے مخالفین سے پُر ہے اور مولویوں کا وہاں بہت زورہے۔ اُن کے اُکسانے سے عوام الناس بہت شور کرتے رہے۔ جس دن آپ کالیکچر تھا اُس روز مخالفین نے فیصلہ کر لیا کہ جس طرح ہو لیکچر نہ ہونے دیں۔ چنانچہ آپ لیکچر ہال میں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ دروازہ پر مولوی بڑے بڑے جُبّے پہنے ہوئے لمبے لمبے ہاتھ مار کر آپ کے خلاف وعظ کر رہے تھے اور بہت سے لوگوں نے اپنے دامنوں میں پتھر بھرے ہوئے تھے۔ آپ لیکچر گاہ میں اندر تشریف لے گئے اور لیکچر شروع کیا۔ لیکن مولوی صاحبان کو اعتراض کا کوئی موقعہ نہ ملا جس پر لوگوں کو بھڑکائیں۔ پندرہ منٹ آپ کی تقریر ہو چکی تھی کہ ایک شخص نے آپ کے آگے چائے کی پیالی پیش کی کیونکہ آپ کے حلق میں تکلیف تھی اور ایسے وقت میں اگر تھوڑے تھوڑے وقفہ سے کوئی سیال چیز استعمال کی جائے تو آرام رہتا ہے۔ آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ رہنے دو لیکن اُس نے آپ کی تکلیف کے خیال سے پیش کر ہی دی۔ اس پر آپ نے بھی اُس میں سے ایک گھونٹ پی لیا۔ لیکن وہ مہینہ روزوں کا تھا۔ مولویوں نے شور مچادیا کہ یہ شخص مسلمان نہیں کیونکہ رمضان شریف میں روزہ نہیں رکھتا۔ آپ نے جواب میں فرمایا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بیمار یا مسافر روزہ نہ رکھے بلکہ جب شفا ہو یا سفر سے واپس آئے تب روزہ رکھے اور مَیں تو بیمار بھی ہوں اور مسافر بھی۔ لیکن جوش میں بھرے ہوئے لوگ کب رُکتے ہیں۔ شور بڑھتا گیا اور باوجود پولیس کی کوشش کے فرونہ ہو سکا۔ آخر مصلحتاً آپ بیٹھ گئے اور ایک شخص کو نظم پڑھنے کے لیے کھڑا کر دیا گیا۔ اُس کے نظم پڑھنے پر لوگ خاموش ہوگئے۔ تب پھر آپ کھڑے ہوئے تو پھر مولویوں نے شور مچادیا اور جب آپ نے لیکچر جاری رکھا تو فساد پر آمادہ ہوگئے اور سٹیج پر حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھے۔ پولیس نے روکنے کی کوشش کی لیکن ہزاروں آدمیوں کی رَو اُن سے روکے نہ رُکتی تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سمندر کی ایک لہر ہے جو آگے ہی بڑھتی چلی آتی ہے۔ جب پولیس سے اُن کا سنبھالنامشکل ہوگیا تب آپ نے لیکچر چھوڑ دیا لیکن پھر بھی لوگوں کا جوش ٹھنڈا نہ ہوا اور انہوں نے سٹیج پر چڑھ کر حملہ اور ہونے کی کوشش جاری رکھی۔ اس پر پولیس انسپکٹر نے آپ سے عرض کی کہ آپ اندر کے کمرہ میں تشریف لے چلیں اور فوراً سپاہی دوڑائے کہ بند گاڑی لے آئیں۔پولیس لوگوں کو اِس کمرہ میں آنے سے روکتی رہی اور دوسرے دروازہ کے سامنے گاڑی لاکر کھڑی کر دی گئی، آپ اُس میں سوارہونے کے لیے تشریف لے چلے۔ آپ گاڑی میں بیٹھنے لگے تو لوگوں کو پتہ لگ گیا کہ آپ گاڑی میں سوار ہو کر چلے ہیں۔ اِس پر جو لوگ لیکچر ہال سے باہر کھڑے تھے وہ حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھے اور ایک شخص نے بڑے زور سے ایک بہت موٹا اور مضبوط سونٹا آپ کو مارا۔ ایک مخلص مرید پاس کھڑا تھا وہ جھٹ آپ کو بچانے کے لیے آپ کے اور حملہ کرنے والے کے درمیان میں آگیا۔ چونکہ گاڑی کا دروازہ کُھلا تھا سونٹااُس پر رُک گیا اور اُس شخص کے بہت کم چوٹ آئی ورنہ ممکن تھا کہ اُس شخص کا خون ہو جاتا۔ آپ کے گاڑی میں بیٹھنے پر گاڑی چلی لیکن لوگوں نے پتھروں کا مینہ برسانا شروع کر دیا گاڑی کی کھڑکیاں بند تںیھ۔ اُن پر پتھر گرتے تھے تو وہ کُھل جاتی تھی۔ ہم انہیں پکڑ کر سبنھالتے تھے لیکن پتھروں کی بوچھاڑ کی وجہ سے ہاتھوں سے چُھوٹ چُھوٹ کر وہ گِر جاتی تھیں لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی کے چوٹ نہیں آئی صرف ایک پتھر کھڑکی میں سے گذرتا ہوا میرے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر لگا۔ چونکہ پولیس گاڑی کے چاروں طرف کھڑی تھی بہت سے پتھر اُسے لگے جس پر پولیس نے لوگوں کو وہاں سے ہٹایا اور گاڑی کے آگے پیچھے بلکہ اُس کی چھت پر بھی پولیس مَین بیٹھ گئے اور دوڑاکر گاڑی کو گھر تک پہنچایا۔ لوگوں میں اِس قدر جوش تھا کہ باوجود پولیس کی موجودگی کے وہ دُورتک گاڑی کے پیچھے بھاگے۔ دوسرے دن آپ قادیان واپس تشریف لے آئے۔