سیرت مسیح موعود علیہ السلام
مذاہب عالَم کا عظیم الشان جلسہ
1896ء کے اواخر میں چند لوگوں نے مل کر لاہور میں ایک مذہبی کانفرنس منعقد کرنے کا ارادہ کیا اور اس کے لیے تمام مذاہب کے پَیروان کو شامل ہونے کی دعوت دی جنہوں نے بڑی خوشی سے اِس بات کو قبول کیا۔ بحث میں شرط تھی کہ کسی مذہب پر حملہ نہ کیا جاوے اور حسبِ ذیل پانچ مضامین پر مختلف مذاہب کے پیَروان سے مضامین لکھنے کی درخواست کی گئی:
- انسان کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی حالتیں
- انسان کی زندگی کے بعد کی حالت
- دنیا میں انسان کی ہستی کی اصل غرض کیا ہے اور وہ کس طرح پوری ہو سکتی ہے۔
- کرم یعنی اعمال کا اثر دنیا و عاقبت میں کیا ہوتا ہے۔
- علم گیان و معرفت کے ذرائع کیا کیا ہیں۔
اس کانفرنس کا مجوزہ حضرتؑ کی خدمت میں بھی قادیان حاضر ہوا اور آپ نے ہر طرح اُن کی تائید کا وعدہ کیا بلکہ اصلی معنوں میں اِس کانفرنس کی بنیاد خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہی رکھی تھی۔ جو شخص بعد میں کانفرنس کا مجوز قرار پایا، قادیان آیا تو حضرت نے یہ تجویز پیش کی تھی۔ چونکہ آپ کی غرض دنیا کو اس صداقت سے آگاہ کرنا تھا جو آپ لے کر آئے تھے اور آپ کا ہر کام نمود ونمائش سے بالا تر ہوتا تھا اِس لیے آپ نے اس شخص کو اس تحریک میں سعی کرنے پر آمادہ کیا اور اس کا پہلا اشتہار قادیان میں ہی چھاپ کر شائع کرایا۔ اپنے ایک مرید کو مقرر کیا کہ وہ ہر طرح اُن کی مدد کرے اور خود بھی مضمون لکھنے کاوعدہ کیا۔ جب آپ مضمون لکھنے لگے تو آپ سخت بیمار ہوگئے اور دستوں کی بیماری شروع ہوگئی لیکن اس بیماری میں بھی آپ نے ایک مضمون لکھا اور جب آپ وہ مضمون لکھ رہے تھے تو آپ کو الہام ہوا کہ “مضمون بالا رہا”۔ یعنی آپ کا مضمون اس کانفرنس میں دوسروں کے مضامین سے بالا رہے گا۔ چنانچہ آپ نے قبل از وقت ایک اشتہار کے ذریعہ یہ بات شائع کر دی کہ میرا مضمون بالا رہے گا۔
اجلاس کانفرنس 28-27-26 دسمبر 1896ء کو مقرر تھے۔ جلسہ کے انتظام کے لیے چھ ماڈریٹر صاحبان مقرر تھے جن کے اسمائِ گرامی مندرجہ ذیل ہیں :۔
- رائے بہادر پرتول چندر صاحب جج چیف کورٹ پنجاب
- خان بہادر شیخ خدا بخش صاحب جج سمال کاز کورٹ لاہور
- رائے بہادر پنڈت رادھا کشن کول پلیڈر چیف کورٹ سابق گورنر جنرل جموں
- حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب طبیب شاہی
- رائے بہادر بھوانی داس ایم۔ اے سیٹلمنٹ آفیسر جہلم
- سردار جواہر سنگھ صاحب سیکرٹری خالصہ کالج کمیٹی لاہور
اِس کانفرنس کے لیے مختلف مذاہب کے مشہور علماء نے مضامین تیار کیے تھے اِس لیے لوگوں میں اِس کے متعلق بڑی دلچسپی تھی اور بہت شوق سے حصہ لیتے تھے اور یہ جلسہ ایک مذہبی دنگل کا رنگ اختیار کر گیا تھا اور ہر مذہب کے پَیرو اپنے اپنے قائم مقاموں کی فتح دیکھنے کے خواہشمند تھے۔ اِس صورت میں تمام پُرانے مذاہب جن کے پَیرو کثرت سے پیدا ہو چکے ہیں بالکل محفوظ تھے کیونکہ اُن کی داد دینے والے لوگ جلسہ گاہ میں کثرت سے پائے جاتے تھے لیکن مرزا صاحب کا مضمون ایک ایسے جلسے میں سنایا جانا تھا جس میں دوست برائے نام تھے اور سب دشمن ہی دشمن تھے کیونکہ اُس وقت تک آپ کی جماعت دو تین سَو سے زیادہ نہ تھی اور اُس جلسہ میں تو شاید پچاس سے زائد آدمی بھی شامل نہ ہوں گے۔
آپ کی تقریر 27 دسمبر کو ڈیڑھ بجے سے ساڑھے تین بجے تک تھی۔ آپ خود تو وہاں نہ جا سکے تھے لیکن آپ نے اپنے ایک مخلص مرید مولوی عبدالکریم صاحب کو اپنی طرف سے مضمون پڑھنے پر مقرر کیا تھا۔ جب انہوں نے تقریر شروع کی تو تھوڑی ہی دیر میں ایسا عالَم ہو گیا کہ گویا لوگ بُت بنے بیٹھے ہیں اور وقت کے ختم ہونے تک لوگوں کو معلوم ہی نہ ہوا کہ کس قدر عرصہ تک آپ بولتے رہے ہیں۔ وقت ختم ہونے پر لوگوں کو سخت تشویش ہوئی کیونکہ آپ کے مضمون کا ابھی پہلا سوال ہی ختم نہ ہوا تھا اور اُس وقت لوگوں کی خوشی کی کوئی انتہانہ رہی جب کہ مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی نے، جن کا لیکچر آپ کے بعد تھا اعلان کیا کہ آپ کے مضمون کا وقت بھی حضرت صاحب کو ہی دیا جائے۔ چنانچہ مولوی عبدالکریم صاحب آپ کا لیکچر پڑھتے چلے گئے حتیّٰ کہ ساڑھے چار بج گئے جب کہ جلسہ کا وقت ختم ہونا تھا لیکن اب بھی پہلا سوال ختم نہ ہوا تھا اور لوگ مُصِر تھے کہ اِس لیکچر کو ختم کیا جائے۔ چنانچہ منتظمین جلسہ نے اعلان کیا کہ بِلالحاظ وقت کے یہ مضمون جاری رہے جس پر ساڑھے پانچ بجے تک سنایا گیا تب جا کر پہلا سوال ختم ہوا۔ مضمون کے ختم ہوتے ہی لوگوں نے اصرار کیا کہ اِس مضمون کے ختم کرنے کے لیے جلسہ کا ایک دن اور بڑھایا جائے چنانچہ 28 تاریخ کے پروگرام کے علاوہ 29تاریخ کو بھی جلسہ کا انتظام کیا گیا اور اُس روز چونکہ بعض اور مذاہب کے قائم مقاموں نے بھی وقت کی درخواست کی تھی اس لیے کارروائی جلسہ صبح کو بجائے ساڑھے دس بجے کے ساڑھے نو بجے سے شروع ہونے کا اعلان کیا گیا اور سب سے پہلے آپ ہی کا مضمون رکھا گیا اور گو پہلے دنوں میں لوگ ساڑھے دس بجے بھی پوری طرح نہ آتے تھے لیکن آپ کے پہلے دن کے لیکچر کا یہ اثر تھا کہ ابھی نو بھی نہ بجے تھے کہ ہر مذہب وملت کے لوگ جوق در جوق جلسہ گاہ میں جمع ہونے شروع ہوگئے اور عین وقت پر جلسہ شروع کیا گیا۔ اُس دن بھی گو آپ کے مضمون کے لیے اڑھائی گھنٹے دیے گئے تھے لیکن تقریر کے اس عرصہ میں ختم نہ ہو سکنے کی وجہ سے منتظمین کو وقت اور دینا پڑا کیونکہ تمام حاضرین یک زبان ہو کر اس تقریر کے جاری رکھنے پر مُصِر تھے چنانچہ ماڈریٹر صاحبان کو وقت بڑھانا پڑا۔ غرض دو روز کے قریباً ساڑھے سات گھنٹوں میں جا کر یہ تقریر ختم ہوئی اور تمام لاہور میں ایک شور پڑ گیا اور سب لوگوں نے تسلیم کیا کہ مرزا صاحب کامضمون بالا رہا اور ہر مذہب و ملِّت کے پَیرو اس کی خوبی کے قائل ہوئے۔ جلسہ کی رپورٹ مرتب کرنے والوں کا اندازہ ہے کہ آپ کے لیکچروں کے وقت حاضرین کی تعداد بڑھتے بڑھتے سات آٹھ ہزار تک ترقی کر جاتی تھی۔ غرض یہ لیکچر ایک عظیم الشان فتح تھی جو آپ کو حاصل ہوئی اور اس دن آپ کا سِکّہ آپ کے مخالفوں کے دلوں میں اور بھی بیٹھ گیا اور خود مخالف اخبارات نے اِس بات کو تسلیم کیا کہ آپ کا مضمون اِس کانفرنس میں بالا رہا۔ یہ مضمون وہی ہے جس کا انگریزی ترجمہ “ٹیچنگز آف اسلام” یورپ اور امریکہ میں خاص طور پر قبولیت حاصل کر چکا ہے۔
1897ء کے آغاز کے ساتھ عیسائی دنیا پر اتمامِ حجت کے لیے ایک اور طریق پیش کیا اور حضرت مسیح علیہ السلام کی حقیقی شخصیت کے ثابت کرنے کے لیے عیسائیوں کے غلط عقائد کی اصلاح کی خاطر چہل روزہ دعوتِ مقابلہ کا اعلان کیا۔ اگرچہ اِس مقابلہ میں دوسرے اہل مذاہب بھی شامل تھے مگر عیسائی بالخصوص مخاطب تھے۔ اِس کے ساتھ ایک ہزار روپیہ کا انعام بھی اُس شخص کے لیے مقرر تھا جو یسوع کی پیشگوئیوں کو حضرت مسیح موعودکی پیشگوئیوں اور نشانوں سے قوی تر دکھا سکے مگر کسی کو جرأت اور حوصلہ نہ ہوا۔