سیرت مسیح موعود علیہ السلام
بعض مشکلات اور آپؑ کا اِستقلال
آپ کے والد صاحب کی جائیداد کچھ مکانات اور دوکانات بٹالہ، امرتسر اور گورداسپور میں تھی اور کچھ مکانات اور دوکانیں اور زمین قادیان میں تھی۔ چونکہ آپ دو بھائی تھے اِس لیے شرعًا و قانونًا وہ جائیداد آپ دونوں کے حصہ میں آتی تھی۔ چونکہ آپ کا حصہ آپ کے گزارہ کے لیے کافی تھا لیکن آپ نے اپنے بڑے بھائی سے وہ جائیداد تقسیم نہیں کرائی اور جو کچھ وہ دیتے اُس پر گزارہ کر لیتے اور اِس طرح گویا والد کے قائم مقام آپ کے بڑے بھائی ہوگئے۔ لیکن چونکہ وہ ملازم تھے اور گورداسپور رہتے تھے اِس لیے اُن دنوں آپ کو بہت تکلیف ہوگئی حتیّٰ کہ ضروریاتِ زندگی کے حاصل کرنے میں بھی آپ کو تکلیف ہوتی تھی اور یہ تکلیف آپ کو آپ کے بھائی کی وفات تک برابر رہی اور یہ گویا آپ کے لیے آزمائش کے سال تھے اور آپ نے اُن آزمائش کے دنوں میں صبرواستقلال سے کام لیا وہ آپ کے درجہ کی بلندی کی بیّن علامت ہے کیونکہ باوجود اس کے کہ آپ کا اپنے والد صاحب کی متروکہ جائیداد پر برابر کا حصہ تھا پھر بھی آپ نے ان کی دنیا کی رغبت دیکھ کر اُن سے اپنا حصہ طلب نہ کیا اور محض کھانے اور کپڑے پر کفایت کی۔ گو آپ کے بھائی بھی اپنی طبیعت کے مطابق آپ کی ضروریات کے پورا کرنے کی کوشش کرتے تھے اور آپ سے ایک حد تک محبت بھی رکھتے تھے اور کسی قدر اَدب بھی کرتے تھے لیکن باوجود اس کے چونکہ وہ دنیاداری میں بالکل منہمک تھے اور حضرت صاحب دنیا سے بالکل متنفر تھے اِس لیے وہ آپ کو ضرورتِ زمانہ سے ناواقف اور سُست سمجھتے تھے اور بعض دفعہ اِس بات پر اظہارِ افسوس بھی کرتے تھے کہ آپ کسی کام کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ چنانچہ ایک دفعہ کسی اخبار کے منگوانے کے لیے آپ نے اُن سے ایک نہایت قلیل رقم منگوائی تو انہوں نے باوجود اس کے کہ آپ کی جائیداد پر قابض تھے، انکار کر دیا اور کہا کہ یہ اسراف ہے۔ کام تو کچھ کرتے نہیں اور یونہی بیٹھے کتب و اخبار کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں۔ غرض آپ کے بھائی صاحب بوجہ دنیاداری میں کمال درجہ کے مشغول ہونے کے آپ کی ضروریات کو نہ خود سمجھ سکتے تھے اور نہ اُن کو پورا کرنے کی طرف متوجہ تھے جس کی وجہ سے آپ کو بہت کچھ تکلیف پہنچتی۔ مگر اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ آپ کے بھائی بھی اکثر قادیان سے باہر رہتے تھے اور اُن کے پیچھے اُن کے منتظمین آپ کے تنگ کرنے میں خاص طور پر کوشاں رہتے۔
آپ کا مجاہدہ اور ایثار اور خدمت اسلام
انہی ایام میں آپ کو بتایا گیا کہ الٰہی انعامات کے حاصل کرنے کے لیے کچھ مجاہدہ کی بھی ضرورت ہے اور یہ کہ آپ کو روزے رکھنے چاہئیں۔ اِس حکم کے ماتحت آپ نے متواتر چھ ماہ کے روزے رکھے اور بارہا ایسا ہوتا تھا کہ آپ کا کھانا جب گھر سے آتا تو آپ بعض غرباء میں تقسیم کر دیتے اور جب روزہ کھول کر گھر سے کھانا منگواتے تو وہاں سے صاف جواب ملتا اور آپ صرف پانی پر یا اور کسی ایسی ہی چیز پر وقت گزار لیتے اور صبح پھر آٹھ پہرہ ہی روزہ رکھ لیتے۔ غرض یہ زمانہ آپ کے لیے ایک بڑے مجاہدات کا زمانہ تھا جسے آپ نے نہایت صبرواستقلال سے گذارا۔ سخت سے سخت تکالیف کے ایام میں بھی اشارۃً اور کنایۃً کبھی جائیداد میں سے اپنا حصہ لینے کی تحریک نہیں کی۔
نہ صرف روزوں کے دنوں میں بلکہ یوں بھی آپ کی ہمیشہ عادت تھی کہ ہمیشہ کھانا غرباء میں بانٹ دیتے تھے اور بعض دفعہ ایک چپاتی کا نصف جو ایک چھٹانک سے زیادہ نہیں ہو سکتا آپ کے لیے بچتا تھا اور آپ اُسی پر گزارہ کرتے تھے۔ بعض دفعہ صرف چَنے بھنوا کر کھا لیتے اور اپنا کھانا سب غرباء کو دے دیتے۔ چنانچہ کئی غریب آپ کے ساتھ رہتے تھے اور دونوں بھائیوں کی مجلسوں میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ ایک بھائی کی مجلس میں سب کھاتے پیتے آدمی جمع ہوتے تھے اور دوسرے بھائی کی مجلس میں غریبوں اور محتاجوں کا ہجوم رہتا تھا جن کو وہ اپنی قلیل خوراک میں شریک کرتا تھا اور اپنی جان پر اُن کو مقدم کر لیتاتھا۔
انہی ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدمت اسلام کے لیے کوشش شروع کی اور مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ میں اخبارات میں مضامین لکھنے شروع کیے جن کی وجہ سے آپ کا نام خود بخود گوشۂ تنہائی سے نکل کر میدانِ شہرت میں آ گیا لیکن آپ خود اُسی گوشۂ تنہائی میں ہی تھے اور باہر کم نکلتے تھے بلکہ مسجد کے ایک حجرہ میں جو صرف 5×6 فٹ کے قریب لمبا اور چوڑا تھا رہتے تھے اور اگر کوئی آدمی ملنے کے لیے آ جاتا تو مسجد سے باہر نکل کر بیٹھ جاتے یا گھر میں آ کر بیٹھے رہتے۔ غرض اس زمانہ میں آپ کا نام تو باہر نکلنا شروع ہوا لیکن آپ باہر نہ نکلے بلکہ اسی گوشۂ تنہائی میں زندگی بسر کرتے۔
اِن مجاہدات کے دنوں میں آپ کو کثرت سے الہامات ہونے شروع ہوگئے اور بعض امورِ غیبیہ پر بھی اطلاع ملتی رہی جو اپنے وقت پر پورے ہو جاتے اور آپ کے ایمان کی زیادتی کا موجب ہوتے اور آپ کے دوست جن میں بعض ہندو اور سکھ بھی شامل تھے اِن باتوں کو دیکھ دیکھ کر حیران ہوتے۔