سیرت مسیح موعود علیہ السلام
ایک مقدمہ میں نشانِ الٰہی
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام گو اس زمانہ میں اپنے والد صاحب کی مدد کے لیے اُن کے دنیاوی کاموں میں لگے ہوئے تھے لیکن آپ کا دل کسی اور طرف تھا اور “دست درکار دل بایار” کی مثال بنے ہوئے تھے۔ مقدمات سے ذرا فارغ ہوتے تو خدا تعالیٰ کی یاد میں مشغول ہو جاتے اور اِن سفروں میں جو آپ کو اُن دنوں مقدمات میں کرنے پڑتے آپ ایک وقت کی نماز بھی بے وقت نہ ہونے دیتے بلکہ اپنے اوقات پر نماز ادا کرتے بلکہ مقدمات کے وقت بھی نماز کو ضائع نہ ہونے دیتے چنانچہ ایک دفعہ تو ایسا ہوا کہ آپ ایک ضروری مقدمہ کے لیے جس کا اثر بہت سے مقدمات پر پڑتا تھا اور جس کے آپ کے حق میں ہو جانے کی صورت میں آپ کے بہت سے حقوق محفوظ ہو جاتے تھے، عدالت میں تشریف لے گئے۔ اُس وقت کوئی ضروری مقدمہ پیش تھا اُس میں دیر ہوئی اور نماز کا وقت آ گیا۔ جب آپ نے دیکھا کہ مجسٹریٹ تو اس مقدمہ میں مصروف ہے اور نماز کا وقت تنگ ہو رہا ہے تو آپ نے اس مقدمہ کو خدا کے حوالے کیا اور خود ایک طرف جاکر وضو کیا اور درختوں کے سایہ تلے نماز پڑھنی شروع کر دی۔ جب نماز شروع کردی تو عدالت سے آپ کے نام پر آواز پڑی۔ آپ آرام سے نماز پڑھتے رہے اور بالکل اِس طرف توجہ نہ کی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو یقین تھا کہ مقدمہ میں فریق مخالف کو یکطرفہ ڈگری مل گئی ہوگی کیونکہ عدالت ہائے کا قاعدہ ہے کہ جب ایک فریق حاضر عدالت نہ ہو تو فریق مخالف کو یکطرفہ ڈگری دی جاتی ہے۔ اِسی خیال میں عدالت میں پہنچے۔ چنانچہ جب عدالت میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ مقدمہ فیصل ہو چکا ہے۔ لیکن چونکہ فیصلہ عدالت معلوم کرنا ضروری تھا جا کر دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ مجسٹریٹ نے، جو ایک انگریز تھا کاغذات پر ہی فیصلہ کر دیا اور ڈگری آپ کے حق میں دی اور اِس طرح خدا تعالیٰ نے آپ کی طرف سے وکالت کی۔ غرض آپ ان دنیاوی کاموں میں اسی طرح مشغول تھے جس طرح ایک شخص سے کوئی ایسا کام کرایاجائے جس کے کرنے پر وہ راضی نہ ہو حالانکہ وہ کام خود آپ کے نفع کا تھا کیونکہ آپ کے والد صاحب کی جائیداد کا محفوظ ہونا درحقیقت آپ کی جائیداد کا محفوظ ہونا تھا کیونکہ آپ اُن کے وارث تھے۔ پس آپ کا باوجود عاقل و بالغ ہونے کے اِس کام سے بیزار رہنا اِس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ دنیا سے بکّلی متنفر تھے اور خدا تعالیٰ ہی آپ کا مقصود تھا۔
محنت اور جفاکشی کی عادت
باوجود اِس کے کہ آپ دنیا سے ایسے متنفر تھے آپ سُست ہرگز نہ تھے بلکہ نہایت محنت کش تھے اور خلوت کے دلدادہ ہونے کے باوجود مشقت سے نہ گھبراتے تھے اور بارہا ایسا ہوتا تھا کہ آپ کو جب کسی سفر پر جانا پڑتا تو سواری کا گھوڑا نوکر کے ہاتھ آگے روانہ کر دیتے اور آپ پیادہ پا بیس پچیس کوس کا سفر طے کر کے منزلِ مقصود پر پہنچ جاتے۔ بلکہ اکثر اوقات آپ پیادہ ہی سفر کرتے تھے اور سواری پر کم چڑھتے تھے اور عادت پیادہ چلنے کی آپ کو آخر عمر تک تھی۔ ستر سال سے متجاوز عمر میں جب کہ بعض سخت بیماریاں آپ کو لاحق تھیں، اکثر روزانہ ہَوا خوری کے لیے جاتے تھے اور چار پانچ میل روزانہ پھر آتے اور بعض اوقات سات میل پیدل پھر لیتے تھے اور بڑھاپے سے پہلے کا حال آپ بیان فرمایا کرتے تھے کہ بعض اوقات صبح کی نماز سے پہلے اُٹھ کر (نماز کا وقت سورج نکلنے سے سوا گھنٹہ پہلے ہوتا ہے) سَیر کے لیے چل پڑتے تھے اور وڈالہ تک پہنچ کر (جو بٹالہ سڑک پر قادیان سے قریباً ساڑھے پانچ میل پر ایک گاؤں ہے) صبح کی نماز کا وقت ہوتا تھا۔