سیرت مسیح موعود علیہ السلام
ملازمت کے حالات اور مسیحیوں سے مباحثات
جب آپ تعلیم سے فارغ ہوئے اُس وقت گورنمنٹ برطانیہ کی حکومت پنجاب میں مستحکم ہوچکی تھی۔ غدر کا پُر آشوب زمانہ بھی گذر چکا تھا اور اہلِ ہند اِس بات کو اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ اب اس گورنمنٹ کی ملازمت ہی میں تمام عزت ہے اِس لیے مختلف شریف خاندانوں کے نوجوان اس کی ملازمت میں داخل ہو رہے تھے۔ ایسے حالات کے ماتحت اور اِس بات کو معلوم کر کے کہ حضرت مرزا صاحب کی طبیعت زمینداری کے کاموں میں بالکل نہیں لگتی، اپنے والد صاحب کے مشورہ سے آپ سیالکوٹ بحصول ملازمت تشریف لے گئے اور وہاں ڈپٹی کمشنر صاحب کے دفتر میں ملازم ہوگئے مگر اکثر وقت علمی مشاغل میں ہی گذرتا اور ملازمت سے فراغت کے اوقات میں یا تو آپ خود مطالعہ کرتے یا دوسرے لوگوں کو پڑھاتے تھے یا مذہبی مباحث میں حصہ لیتے تھے اور اُس وقت بھی آپ کی پرہیز گاری اور تقویٰ کا اتنا اثر تھا کہ باوجود اس کے کہ آپ بالکل نوجوان تھے اور صرف اٹھائیس سال کی عمر تھی مگر بوڑھے بوڑھے آدمی مسلمانوں میں سے بھی اور ہندوؤں میں سے بھی آپ کی عزت کرتے تھے لیکن آپ کی عادت اُس وقت بھی خلوت پسندی کی تھی۔ اپنے مکان سے باہر کم جاتے اور اکثر وقت وہیں گذارتے۔ مسیحی مشن اُن دنوں پنجاب میں نیا نیا آیا تھا اور مسلمان اُن کے حملوں سے ناواقف تھے اور اکثر مسیحیوں سے شکست کھاتے تھے لیکن حضرت مرزا صاحب سے جب کبھی بھی مسیحیوں کی گفتگو ہوئی اُن کو نیچا دیکھنا پڑا۔ چنانچہ پادریوں میں سے جو لوگ حق پسند تھے وہ باوجود اختلاف مذہبی کے آپ کی بہت عزت کرتے چنانچہ آپ کا سوانح نگار لکھتا ہے کہ ریورنڈبٹلر ایم۔ اے جو سیالکوٹ کے مشن میں کام کرتے تھے اور جن سے حضرت مرزا صاحب کے بہت سے مباحثات ہوتے رہتے تھے جب ولایت واپس جانے لگے تو خود کچہری میں آپ کے پاس ملنے کے لیے چلے آئے اور جب ڈپٹی کمشنر صاحب نے پوچھا کہ کس طرح تشریف لائے ہیں تو ریورنڈ مذکور نے کہا کہ صرف مرزا صاحب کی ملاقات کے لیے اور جہاں آپ بیٹھے تھے وہیں سیدھے چلے گئے اور کچھ دیر بیٹھ کر واپس چلے گئے۔ یہ اُن دنوں کا واقعہ ہے جب کہ گورنمنٹ برطانیہ کی نئی نئی فتح کو پادری لوگ اپنی فتح کی علامت قرار دیتے تھے اور اُن میں تکبر اِس قدر سرایت کر گیا تھا کہ ان دنوں میں جو کتب اسلام کے خلاف لکھی گئی ہیں اُن کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پادری صاحبان نے اُس وقت شاید یہ خیال کر رکھا تھا کہ چند ہی روز میں تمام مسلمانوں کو پکڑ کر بزور شمشیر گورنمنٹ مسیحی بنا لے گی اور وہ اسلام اور بانیٔ اسلام کے خلاف سخت سے سخت الفاظ استعمال کرنے سے بھی نہ رکتے تھے، حتیّٰ کہ بعض دانا یوروپین صاحبان کو ہی اُن تصانیف کو دیکھ کر لکھنا پڑا کہ اِن تحریروں کی وجہ سے اگر دوبارہ 1857ء کی طرح غدر ہو جائے تو کوئی تعجب نہیں اور یہ حالت اُس وقت تک قائم رہی جب تک کہ مسیحی پادریوں کو یہ یقین نہ ہوگیا کہ ہندوستان میں حکومت انگلستان کی ہے نہ کہ پادریوں کی۔ اور یہ کہ کوئین وکٹوریہ کی گورنمنٹ بزور شمشیر دین مسیحی پھیلانے کی ہرگز روادار نہیں اور وہ کبھی پسند نہیں کرتی کہ کسی مذہب کی ناجائز طور پر دل آزاری کی جائے۔ غرض اُس وقت مسیحیوں اور مسلمانوں کے تعلقات نہایت کشیدہ تھے اور پادریوں کے اخلاق اُن دنوں میں صرف انہی لوگوں تک محدود ہوتے تھے جو اُن کی باتوں کی تصدیق کریں اور جو آگے سے جواب دے بیٹھیں اُن کے خلاف اُن کا جوش بڑھ جاتا تھا لیکن باوجود اس کے کہ حضرت مرزا صاحب دین میں غیور تھے اور مذہبی مباحثات میں کسی سے نہ دبتے تھے۔ ریورنڈ بٹلر آپ کی نیک نیتی اور اخلاص اور تقویٰ کو دیکھ کر متاثر تھے اور باوجود اِس بات کو محسوس کرنے کے کہ یہ شخص میرا شکار نہیں، ہاں ممکن ہے کہ مَیں اس کا شکار ہو جاؤں اور باوجود اس طبعی نفرت کے جو ایک صَید کو صیاد سے ہوتی ہے وہ دوسرے مذہبی مناظرین کی نسبت مرزا صاحب سے مختلف سلوک کرنے پر مجبور ہوئے اور جاتے وقت کچہری میں ہی آپ سے ملنے کے لیے آگئے اور آپ سے ملے بغیر جانا پسند نہ کیا۔