سیرت مسیح موعود علیہ السلام
منارۃ المسیح کی بنیاد
اِس سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بعض پیشگوئیوں کی بنا پر کہ مسیح دمشق کے مشرق کی جانب ایک سفید منارہ پر اُترے گا ایک منارہ کی بنیاد رکھی تا کہ وہ پیشگوئی لفظًا بھی پوری ہو جائے۔ گو اِس پیشگوئی کے حقیقی معنے یہی تھے کہ مسیح موعود کھلے کھلے دلائل اور براہین کے ساتھ آئے گا اور تمام دنیا پر اس کا جلال ظاہر ہوگا اور اس کو بہت بڑی کامیابی ہوگی کیونکہ علمِ تعبیر الرؤیا میں منارے سے مراد وہ دلائل ہیں جن کا انسان انکار نہ کر سکے اور بلندی پر ہونے کے معنے ایسی شان حاصل کرنے کے ہیں جو کسی کی نظر سے پوشیدہ نہ رہے اور مشرق کی طرف آنے سے مراد ایسی ترقی ہوتی ہے جسے کوئی نہ روک سکے۔
مقدمۂ کرم دین (ازالہ حیثیت عُرفی)
1902ء کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایک شخص کرم دین نے ازالہ عرفی کا مقدمہ کیا اور جہلم کے مقام پر عدالت میں حاضر ہونے کے لیے آپ کے نام سمن جاری ہوا۔ چنانچہ آپ جنوری 1903ء میں وہاں تشریف لے گئے۔ یہ سفر آپ کی کامیابی کے شروع ہونے کا پہلا نشان تھا کہ گو آپ ایک فوجداری مقدمہ کی جواب دہی کے لیے جا رہے تھے لیکن پھر بھی لوگوں کے ہجوم کا یہ حال تھا کہ اس کا کوئی اندازہ نہیں ہو سکتا۔ جس وقت آپ جہلم کے سٹیشن پر اُترے ہیں اُس وقت وہاں اس قدر انبوہِ کثیر تھا کہ پلیٹ فارم پر کھڑا ہونے کی جگہ نہ رہی تھی بلکہ اسٹیشن کے باہر بھی دو رویہ سڑکوں پر لوگوں کی اتنی بھیڑ تھی کہ گاڑی کا گزرنا مشکل ہو گیا تھا حتیّٰ کہ افسرانِ ضلع کو انتظام کے لیے خاص اہتمام کرنا پڑا اور غلام حیدر صاحب تحصیلدار اِس اسپیشل ڈیوٹی پر لگائے گئے۔ آپ حضرت صاحب کے ساتھ نہایت مشکل سے راستہ کراتے ہوئے گاڑی کو لے گئے کیونکہ شہر تک برابر ہجومِ خلائق کے سبب راستہ نہ ملتا تھا۔ اہلِ شہر کے علاوہ ہزاروں آدمی دیہات سے بھی آپ کی زیارت کے لیے آئے تھے۔ قریباً ایک ہزار آدمی نے اِس جگہ بیعت کی اور جب آپ عدالت میں حاضر ہونے کے لیے گئے تو اِس قدر مخلوق کارروائی مقدمہ سننے کے لیے موجود تھی کہ عدالت کو انتظام کرنا مشکل ہو گیا۔ دور میدان تک لوگ پھیلے ہوئے تھے۔ پہلی ہی پیشی میں آپ بَری کیے گئے اور مع الخیر واپس تشریف لے آئے۔
جماعت کی ترقی اور کرم دین والے مقدمہ کا طول پکڑنا
1903ء سے آپ کی ترقی حیرت انگیز طریق سے شروع ہوگئی اور بعض دفعہ ایک ایک دن میں پانچ پانچ سَو آدمی بیعت کے خطوط لکھتے تھے اور آپ کے پَیرو اپنی تعداد میں ہزاروں لاکھوں تک پہنچ گئے۔ ہر قسم کے لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور یہ سلسلہ بڑے زور سے پھیلنا شروع ہو گیا اور پنجاب سے نکل کر دوسرے صوبوں اور پھر دوسرے ملکوں میں بھی پھیلنا شروع ہو گیا۔
اِسی سال جماعت احمدیہ کے لیے ایک دردناک حادثہ پیش آیا کہ کابل میں اِس جماعت کے ایک برگزیدہ ممبر کو صرف مذہبی مخالفت کی وجہ سے سنگسار کیا گیا۔
مقدمات کا سلسلہ جو جہلم میں شروع ہوکر بظاہر ختم ہو گیا تھا پھر بڑے زور سے شروع ہو گیا۔ یعنی کرم دین جس نے پہلے وہاں آپ کے خلاف مقدمہ کیا تھا اُسی نے پھر گورداسپور میں آپ پر ازالہ حیثیت عرفی کی نالش دائر کر دی۔ اِس مقدمہ نے اِتنا طول کھینچا کہ جسے دیکھ کرحیرت ہوتی ہے۔ اِس مقدمہ کی کارروائی کے دوران میں ایک مجسٹریٹ بھی بدل گیا اور اس کی پیشیاں ایسے تھوڑے تھوڑے وقفہ سے رکھی گئیں کہ آخر مجبور ہو کر آپ کو گورداسپور کی ہی رہائش اختیار کرنی پڑی۔
اس مقدمہ کو اس قدر طول دیا گیا تھا کہ صرف تین چار الفاظ پر گفتگو تھی۔ کرم دین نے آپ کے خلاف ایک صریح جھوٹ بولا تھا۔ آپ نے اُس کی نسبت اپنی کتاب میں کذاب کا لفظ لکھا تھا جس کے معنی عربی زبان میں جھوٹا بھی ہیں اور بہت جھوٹا بھی۔ اِسی طرح ایک لفظ لئیم ہے جس کے معنے کمینہ ہیں۔ لیکن کبھی ولد الزنا کے معنوں میں بھی استعمال ہو جاتا ہے اور اُس کا زور اِس بات پر تھا کہ مجھے بہت جھوٹا اور ولدالزنا کہا گیا ہے۔ حالانکہ اگر ثابت ہے تو یہ کہ مَیں نے ایک جھوٹ بولا ہے۔ اِس پر عدالت میں ان الفاظ کی تحقیقات شروع ہوئی اور بعض اِس قسم کے اور باریک سوال پیدا ہوگئے جن پر ایسی لمبی بحث چھڑی کہ دو سال اِن مقدمات میں لگ گئے۔ دورانِ مقدمہ میں ایک مجسٹریٹ کی نسبت مشہور ہوا کہ اس کے ہم مذہبوں نے کہا ہے کہ مرزا صاحب اِس وقت خوب پھنسے ہوئے ہیں، ان کو سزا ضرور دو خواہ ایک دن کی قید کیوں نہ ہو۔ جن دوستوں نے یہ بات سنی سخت گھبرائے ہوئے آپ کے پاس حاضر ہوئے اور نہایت ڈر کر عرض کیا کہ حضور ہم نے ایسا سنا ہے۔ آپ اس وقت لیٹے ہوئے تھے یہ بات سنتے ہی آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور ایک ہاتھ کے سہارے سے ذرا اُٹھ بیٹھے اور اُٹھ کر بڑے زور سے فرمایا کہ کیا وہ خدا تعالیٰ کے شیر پر ہاتھ ڈالنا چاہتا ہے؟ اگر اُس نے ایسا کیا تو وہ دیکھ لے گا کہ اس کا کیا انجام ہوتا ہے۔ نہ معلوم یہ خبر سچی ہے یا جھوٹی لیکن اس مجسٹریٹ کو انہی دنوں وہاں سے بدل دیا گیا اور باوجود کوشش کے فوجداری اختیارات اُس سے لے لیے گئے اور کچھ مدت کے بعد اُس کا عہدہ بھی کم کر دیا گیا۔ اس کے بعد مقدمہ ایک اور مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوا اُس نے بھی نہ معلوم کیوں اِس کو بہت لمبا کیا اور گو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں تو آپ کو کرسی ملتی تھی لیکن اِس مجسٹریٹ نے باوجود آپ کے سخت بیمار ہونے کے آپ کو کرسی نہ دی اور بعض دفعہ سخت پیاس کی حالت میں پانی پینے تک کی اجازت نہ دی۔ آخر ایک لمبے مقدمہ کے بعد آپ پر دو سَو روپے جرمانہ کیا اس پر سیشن جج صاحب امرتسر مسٹرہیری صاحب کی عدالت میں جو ایک یورپین تھے، اِس فیصلہ کی نگرانی کی گئی اور جب انہوں نے مقدمہ کی مسل دیکھی تو سخت افسوس ظاہر کیا کہ ایسے لغو مقدمہ کو مجسٹریٹ نے اس قدر لمبا کیوں کیا اور کہا کہ اگر یہ مقدمہ میرے پاس آتا تو مَیں ایک دن میں اِسے خارج کر دیتا۔ کرم دین جیسے انسان کو جو لفظ مرزا صاحب نے استعمال کیے اگر اُن سے بڑھ کر بھی کہے جاتے تو بالکل درست تھا۔ جو کچھ ہوا نہایت ناواجب ہوا اور انہوں نے دو گھنٹے کے اندر آپ کو بَری کر دیا اور جرمانہ معاف کر دیا اور اِس طرح دوسری دفعہ ایک یورپین حاکم نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ خدا تعالیٰ حکومت انہی لوگوں کے ہاتھ میں دیتا ہے جن کو وہ اس کے قابل سمجھتا ہے۔
اِس مقدمہ کا فیصلہ جنوری 1905ء میں ہوا اور اس فیصلہ کے ساتھ خدا تعالیٰ نے جو وحی آپ پر کئی سال پیشتر مقدمہ کے انجام کی نسبت کی تھی وہ پوری ہوئی۔
اِس مقدمہ کی کارروائی کو ایک جگہ بیان کرنے کے لیے مَیں آپ کے دو ضروری سفر چھوڑ گیا ہوں جن میں سے آپ کا پہلا سفر تو لاہور کی طرف تھا جو دورانِ مقدمہ میں ماہِ اگست 1904ء میں ہوا۔ اِس دفعہ آپ لاہور میں پندرہ دن رہے۔ اِس سفر میں بھی چاروں طرف سے لوگ آپ کی زیارت کے لیے جوق در جوق آئے اور اسٹیشن پر تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی اور اس تمام عرصہ میں ایک شور پڑا رہا۔ آپ کی قیام گاہ کے نیچے صبح سے شام تک برابر ایک مجمع رہتا۔ مخالف آن آن کر گالیاں دیتے اور شور مچاتے حتیّٰ کہ بعض شریروں نے زنانہ مکان میں گھسنے کی بھی کوشش کی جنہیں زبردستی باہر نکالا گیا۔ لاہور کے دوستوں کی درخواست پر آپ کا لیکچر مقرر ہوا جو چھاپا گیا اور ایک وسیع ہال میں وہ لیکچر مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے پڑھ کر سنایا آپ بھی پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ قریباً سات آٹھ ہزار آدمی تھے۔ اِس لیکچر کے ختم ہونے پر لوگوں نے درخواست کی کہ آپ کچھ زبانی بھی بیان فرمائیں۔ اس پر آپ اُسی وقت کھڑے ہوگئے اور آدھ گھنٹہ تک ایک مختصر سی تقریر فرمائی۔ چونکہ یہ ایک تجربہ شدہ بات تھی کہ آپ جہاں جاتے ہر مذہب و ملت کے لوگ آپ کے خلاف جوش دکھلاتے خصوصاً مسلمان کہلانے والے، اس لیے افسران پولیس نے اس دفعہ بہت اعلیٰ انتظام کیا ہوا تھا۔ دیسی پولیس کے علاوہ یوروپین سپاہی بھی انتظام کے لیے لگائے گئے تھے جو تلواریں ہاتھ میں لیے تھوڑے تھوڑے فاصلہ سے کھڑے ہوئے تھے۔ چونکہ پولیس افسروں کو معلوم ہو گیا تھا کہ بعض جہلاء جلسہ گاہ سے باہر فساد پر آمادہ ہیں اِس لیے انہوں نے آپ کی واپسی کے لیے خاص انتظام کر رکھا تھا اور چند سوار کچھ فاصلہ پر آگے آگے چلے جاتے تھے اور پیچھے آپ کی گاڑی تھی۔ گاڑی کے پیچھے پھر کچھ پولیس کے جوان تھے اور ان کے پیچھے پھر پولیس کے سوار جن کے پیچھے پیادہ پولیس مَین۔ اِس طرح بڑی حفاظت سے آپ کو گھر پہنچایا گیا اور منصوبہ بازوں کو اپنی شرارت میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ وہاں سے آپ واپس گورداسپور تشریف لے آئے۔ اواخر اکتوبر 1904ء میں آپ گورداسپور کے مقدمات سے گونہ فراغت پا کے قادیان آگئے۔
27 اکتوبر کو سیالکوٹ تشریف لے گئے کیونکہ وہاں کے دوستوں نے باصرار وہاں تشریف لے جانے کی درخواست کی تھی اور عرض کیا تھا کہ آپ اپنی ابتدائی عمر میں یہاں کئی سال رہے ہیں پس اب بھی جبکہ خدا تعالیٰ نے آپ کو عظیم الشّان کامیابی عطافرمائی ہے ایک دفعہ اِس طرف قدم رنجہ فرما کر اس زمین کو برکت دیں یہ سفر بھی آپ کی کامیابی کابیّن ثبوت تھا کیونکہ ہر ایک اسٹیشن پر آپ کی زیارت کے لیے اِس قدرمخلوق آتی تھی کہ سٹیشن کے حکام کو انتظام کرنا مشکل ہو جاتا تھا اور لاہور کے اسٹیشن پر تو اِس قدرہجوم ہوا کہ پلیٹ فارم ٹکٹ ختم ہوگئے اور اسٹیشن ماسٹر کو بلا ٹکٹ ہی لوگوں کو اندر آنے کی اجازت دینی پڑی۔ جب آپ سیالکوٹ پہنچے تو اسٹیشن سے آپ کی قیام گاہ تک جو میل بھر کے فاصلہ پر تھی، برابر لوگوں کا ہجوم تھا۔ شام کے وقت ٹرین اسٹیشن پر پہنچی تو سواری گاڑیوں میں چڑھتے چڑھاتے دیر لگ گئی اور آپ کی گاڑی ابھی تھوڑی ہی دور چلنے پائی تھی کہ اندھیرا ہوگیا۔ ہجوم خلائق کے سبب اور رات کے پڑ جانے سے اندیشہ ہوا کہ کہیں بعض لوگ گاڑیوں کے نیچے نہ آجائیں چنانچہ پولیس کو اِس بات کا خاص انتظام کرنا پڑا کہ آپ کے آگے آگے راستہ صاف رہے۔ سیالکوٹ کے ایک رئیس اور آنریری مجسٹریٹ پولیس کے ساتھ اِس کام پر تھے۔ اُن کو بڑی مشکل اور سختی سے راستہ کرانا پڑتا تھا اور گاڑی نہایت آہستہ آہستہ چل سکتی تھی۔ گاڑی کی کھڑکیاں کھول دی گئی تھیں۔ بازاروں اور گلیوں میں لوگ علاوہ دو رویہ کھڑے ہونے کے، دوکانوں کے برآمدے بھی بھرے ہوئے تھے اور بعض تو جگہ نہ ملنے کی وجہ سے کھڑکیوں کے چھجوں پر چڑھے بیٹھے تھے۔ تمام چھتوں پر ہندوؤں اور مسلمانوں نے آپ کی شکل دیکھنے کے لیے ہنڈیاں اور لیمپ جلا رکھے تھے اور چھتیں عورتوں اور مردوں سے بھری پڑی تھیں جوآپ کی گاڑی کے قریب آنے پر مشعلیں آگے کر کر کے آپ کی شکل دیکھتے تھے اور بعض لوگ آپ پر پُھول پھینکتے تھے۔