سیرت مسیح موعود علیہ السلام
مکالمۂ الٰہیہ کا آغاز
آپ کی عمر قریباً چالیس سال کی تھی جب کہ 1876ء میں آپ کے والد صاحب یکدفعہ بیمار ہوئے اور گو اُن کی بیماری چنداں خوفناک نہ تھی لیکن حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ الہام بتایا کہ وَالسَّمَآئِ وَالطَّارِقِ یعنی رات کے آنے والے کی قسم۔ تو کیا جانتا ہے کہ کیا ہے رات کو آنے والا۔ اور ساتھ ہی تفہیم ہوئی کہ اِس الہام میں آپ کے والد صاحب کی وفات کی خبر دی گئی ہے جو کہ بعد مغرب واقعہ ہوگی۔ گو حضرت صاحب کو اس سے پہلے ایک مدت سے رؤیائے صالحہ ہو رہے تھے جو اپنے وقت پر نہایت صفائی سے پورے ہوتے تھے اور جن کے گواہ ہندو اور سکھ بھی تھے اور اب تک بعض ان میں سے موجود ہیں۔ لیکن الہامات میں سے یہ پہلا الہام ہے جو آپ کو ہوا اور اِس الہام کے ذریعہ سے گویا خداتعالیٰ نے اپنی محبت کے ساتھ آپ کو بتایا کہ تیرا دُنیاوی باپ فوت ہوتا ہے لیکن آج سے مَیں تیرا آسمانی باپ ہوتا ہوں۔ غرض پہلا الہام جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا وہ یہی تھا جس میں آپ کو آپ کے والد صاحب کی وفات کی خبر دی گئی تھی۔ اس خبر پر بالطبع آپ کے دل میں رنج پیدا ہونا تھا چنانچہ آپ کو اس خبر سے صدمہ پیدا ہوا اور دل میں خیال گذرا کہ اب ہمارے گذارے کی کیا صورت ہوگی؟ جس پر دوسری دفعہ پھر الہام ہوا اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح سے تسلی دی۔ اِس واقعہ کو مَیں اِس جگہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں لکھ دینا مناسب سمجھتا ہوں۔ آپ تحریر فرماتے ہیں :۔
آپ کے والد کی وفات اور الٰہی تصرفات
“جب مجھے یہ خبر دی گئی کہ میرے والد صاحب آفتاب غروب ہونے کے بعد فوت ہو جائیں گے تو بموجب بمقتضائے بشریت کے مجھے اِس خبر کے سننے سے درد پہنچا اور چونکہ ہماری معاش کے اکثر وجوہ انہی کی زندگی سے وابستہ تھے اور وہ سرکار انگریزی کی طرف سے پنشن پاتے تھے اور نیز ایک رقم کثیر انعام کی پاتے تھے جو اُن کی حیات سے مشروط تھی اس لیے یہ خیال گذرا کہ اُن کی وفات کے بعد کیا ہوگا اور دل میں خوف پیدا ہوا کہ شاید تنگی اور تکلیف کے دن ہم پر آئیں گے اور یہ سارا خیال بجلی کی چمک کی طرح ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصہ میں گذر گیا تب اُسی وقت غنودگی ہو کر یہ دوسرا الہام ہوا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ یعنی کیاخدا تعالیٰ اپنے بندہ کے لیے کافی نہیں ہے۔ اِس الہام کے ساتھ ایسا دل قوی ہوا کہ جیسے ایک سخت دردناک زخم کسی مرہم سے ایک دَم میں اچھا ہو جاتا ہے۔ جب مجھ کو الہام ہوا کہ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ تومَیں نے اُسی وقت سمجھ لیا کہ خدا مجھے ضائع نہیں کرے گا۔ تب مَیں نے ایک ہندو کھتری ملاوامَل نام کو جو ساکن قادیان ہے اور ابھی تک زندہ ہے وہ الہام لکھ کر دیا اور سارا قصہ سنایا اور اس کو امرتسر بھیجا کہ تا حکیم مولوی محمد شریف کلانوری کی معرفت اس کو نگینہ میں کھدوا کر اور مہر بنوا کر لے آوے اور مَیں نے اس ہندو کو اس کام کے لیے محض اِس غرض سے اختیار کیا کہ وہ اس عظیم الشان پیشگوئی کا گواہ ہو جاوے۔ چنانچہ مولوی صاحب موصوف کے ذریعہ سے وہ انگشتری بصرف مبلغ پانچ روپے تیار ہوکر میرے پاس پہنچ گئی جو اَب تک میرے پاس موجود ہے جس کا نشان یہ ہے:۔
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلدنمبر22 صفحہ 219-220)
غرض جس دن حضرت صاحب کے والد صاحب نے وفات پائی تھی اُس دن مغرب سے چند گھنٹے پہلے ان کی وفات کی اطلاع آپ کو دے دی گئی اور بعد میں خداتعالیٰ نے تسلی فرما دی کہ گھبراؤ نہیں اللہ تعالیٰ خود ہی تمہارا انتظام فرماوے گا۔۔ جس دن یہ الہامات ہوئے اُسی دن شام کو بعد مغرب آپؑ کے والد صاحب فوت ہوگئے اور آپ کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔