سیرت مسیح موعود علیہ السلام
واقعہ قتل لیکھرام
1897ء میں لیکھرام نامی ایک آریہ 6 مارچ کو آپ کی ایک پیشگوئی کے مطابق مارا گیا اور اس پر آریوں میں سخت شور برپا ہوا اور بعض شریروں نے طرح طرح سے احمدیوں کو اور پھر اُن کے ساتھ دوسرے مسلمانوں کو بھی دکھ دینا شروع کیا اور حضرت مسیح موعود کے خلاف تو سخت ہی شور برپا ہوا اور کھلے لفظوں میں آپ پر قتل کا الزام لگایا گیا اور فورًا آپ کی تلاشی لی گئی کہ شاید کوئی سراغ قتل کا مل جاوے لیکن اللہ تعالیٰ نے دشمن کو ہر طرح ناکام رکھا اور باوجود اس کے کہ ہر طرح آپ پر الزام لگانے کی کوشش کی گئی لیکن پھر بھی کامیابی نہ ہوئی اور آپ اس الزام سے بالکل پاک ثابت ہوئے۔
حسین کامی رومی سفیر کا قادیان میں آنا
مئی 1897ء میں ایک عظیم الشان واقعہ کا آغاز ہوا جو تاریخ میں ایک نشان کے طور پر رہے گا۔ حسین کامی سفیر روم اپنی متعدد درخواستوں کے بعد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں قادیان حاضر ہوا۔ حضرت نے اپنی خداداد فراست اور الہامی اطلاع پر اُسے اشارۃً اُس کی اپنی حالت اور ٹرکی پر آنے والے مصائب سے اطلاع دی کیونکہ سفیر مذکور نے سلطنتِ روم کی نسبت ایک خاص دعا کی تحریک کی تھی جس پر آپ نے اس کو صاف فرما دیا کہ سلطان کی سلطنت کی حالت اچھی نہیں ہے اور مَیں کشفی طریق سے اس کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا اور میرے نزدیک اِن حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں۔
اِن باتوں سے سفیر مذکور ناراض ہو کر چلا گیا اور لاہور کے ایک اخبار میں گندی گالیوں کا ایک خط چھپوایا جس سے مسلمانانِ ہندوپنجاب میں شور مچ گیا مگر بعد میں آنے والے واقعات نے اس حقیقت کو کھول دیا اِس کے ضمن میں بہت سی پیشگوئیاں پوری ہو گئیں۔ خود سفیر مذکور حضرت کے مشہور الہام اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ کا نشانہ بنا کیونکہ وہ ایک سنگین الزام میں ماخوذ ہو کر سزا یاب ہوا اور جس اخبار نے نہایت زور سے اِس مضمون کی تائید کی تھی اور اُسے چھاپا تھا وہ بھی سزا سے نہ بچا اور سلطنت ٹرکی کی جو حالت ہے وہ ہر شخص پر عیاں ہے۔
مقدمہ ڈاکٹر مارٹن کلارک
اِسی سن کی یکم اگست کو آپ کے خلاف ڈاکٹر مارٹن کلارک نام ایک مسیحی پادری نے مقدمہ سازش قتل مسٹر اے۔ ای مارٹینو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر کی عدالت میں دائر کیا اور بیان کیا کہ مرزا صاحب نے عبدالحمید نام ایک شخص کو میرے قتل کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ اوّل تو ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر نے آپ کے نام وارنٹ گرفتاری جاری کیا لیکن بعد میں اُن کو معلوم ہوا کہ بوجہ غیر ضلع ہونے کے یہ بات اُن کے اختیار سے باہر ہے۔ پس مقدمہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب بہادر ضلع گورداسپور کی عدالت میں منتقل کیا جن کا نام ایم۔ ڈبلیو ڈگلس ہے اور جو اِس وقت جزائر انڈیمان کی چیف کمشنری سے پنشن یاب ہو کر ولایت میں ہیں۔ آپ کے سامنے بھی عبدالحمید نے یہی بیان کیا کہ مجھے مرزا صاحب نے مارٹن کلارک صاحب کے قتل کے لیے بھیجا تھا اور کہا تھا کہ ایک بڑے پتھر سے اِن کو مار دو۔ لیکن چونکہ اس بیان میں جو اُس نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر کے سامنے دیا تھا اور اُس میں جو اب آپ کے سامنے دیا کچھ فرق تھا اِس لیے آپ کو کچھ شک پڑ گیا اور آپ نے بڑے زور سے اِس امر کی تحقیقات شروع کی اور چار ہی پیشیوں میں 27 دن کے اندر مقدمہ فیصلہ کر دیا اور باوجود اِس کے کہ آپ کے مقابلہ پر ایک مسیحی جماعت تھی بلاتعصب حضرت مسیح موعود کے حق میں فیصلہ دیا اور آپ کو صاف بَری کر دیا بلکہ اجازت دی کہ اپنے مخالفین کے خلاف مقدمہ دائر کریں لیکن آپ نے اُن کو معاف کر دیا اور اُن پر کوئی مقدمہ نہ کیا۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب اپنے فیصلہ میں تحریر فرماتے ہیں :۔
’’ہم نے اُس کا بیان سنتے ہی اس کو بعید از عقل سمجھا کیونکہ اوّل تو اُس کا بیان جو ہمارے سامنے ہوا اُس بیان سے مختلف تھا جو امرتسر کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب کے سامنے ہوا۔ علاوہ ازیں اس کی وضع قطع ہی شُبہ پیدا کرنے والی تھی۔ دوسرے ہم نے اس کے بیانات میں یہ عجیب بات دیکھی کہ جس قدر عرصہ وہ بٹالہ میں مشن کے ملازموں کے پاس رہا اُس کا بیان مفصّل اور طویل ہوتا گیا۔ چنانچہ اُس نے ایک بیان 12 اگست کو دیا اور ایک 13 اگست کو اور دوسرے دن کے بیان میں کئی تفصیلات بڑھ گئیں جو پہلے دن کے بیان میں نہ تھیں۔ چونکہ اس سے ہمیں شُبہ پیداہوا کہ یا تو اسے کوئی سکھاتا ہے یا اِسے بہت کچھ معلوم ہے جسے وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔ اِس لیے ہم نے صاحب سپرنٹنڈنٹپولیس کو کہا جو ایک یورپین آفیسر تھے کہ اِس کو مشن کمپاؤنڈ سے نکال کر اپنی تحویل میں رکھو اور پھر بیان لو۔ انہوںنے اُسے مشن کے قبضہ سے نکال لیا اور جب آپ نے اُس سے بیان لیا تو بلا کسی وعدہ معافی کے وہ رو کر پاؤں پر گِر گیا اوربیان کیا کہ مجھ کو ڈرا کر یہ سب کچھ کہلوایا گیا ہے۔ مَیں اپنی جان سے بیزار ہوں اور خود کشی کے لیے تیار تھا اوردرحقیقت جو کچھ مَیں نے مرزا صاحب کے خلاف بیان کیا وہ عبدالرحیم، وارث الدین اور پریم داس عیسائیوں کی سازشاور اُن کے سکھانے سے کیا ہے۔ مرزا صاحب نے نہ مجھ کو بھیجا اور نہ میرا اُن سے کوئی تعلق تھا۔ چنانچہ جو دقت ایک دنکے بیان میں آتی دوسرے دن یہ مجھے سکھا دیتے اور مرزا صاحب کے جس مرید کی نسبت مَیں نے بیان کیا تھا کہ اُس نےبعد از قتل مجھے پناہ دینی تھی اُس کی شکل سے بھی مَیں واقف نہیں نہ اُس کا نام سنا تھا انہوں نے خود ہی اس کا ناماور پتہ مجھے یاد کرا دیا اور اِس ڈر سے کہ مَیں بھول نہ جاؤں میری ہتھیلی پر پنسل سے نام لکھ دیا تھا کہ اُس وقت دیکھلینا اور یہ بھی کہا کہ جب پہلے مجھ سے مرزا صاحب کے خلاف بیان لکھوایا تو اِن عیسائیوں نے خوش ہو کر کہا کہ ابہمارے دل کی مراد بَر آئی (یعنی اب ہم مرزا صاحب کو پھنسائیں گے)‘‘۔
یہ تمام تفصیل لکھ کر مجسٹریٹ صاحب بہادر نے آپ کو بَری کیا۔ اِس مقدمہ پر آپ کے مخالف اِس قدر خوش تھے کہ ایک آریہ وکیل نے بلا اُجرت اِس میں مسیحیوں کی طرف سے پَیروی کی اور مسلمان مولوی بھی آپ کے خلاف گواہی دینے آئے۔ غرض مسیحی، ہندو اور مسلمان مل کر آپ پر حملہ اور ہوئے اور بعض ناجائز طریق بھی اختیار کیے گئے لیکن خدا تعالیٰ نے کپتان ڈگلس کو پیلاطوس سے زیادہ ہمت اور حوصلہ دیا۔ انہوں نے ہر موقعہ پر یہی کہا کہ مَیں بے ایمانی نہیں کر سکتا اور یہ نہیں کیا کہ اپنے ہاتھ دھو کر مسیح موعود کو اس کے دشمنوں کے ہاتھ میں دے دیتے بلکہ انہوں نے آپ کو بَری کیا اور اِس طرح رومن حکومت پر برٹش راج کی برتری ثابت کر دی۔
انہی دنوں میں آپ نے “اَلصُّلْحُ خَیْر” کے نام سے ایک اشتہار شائع کر کے مسلمان علماء کے آگے تجویز پیش کی کہ وہ آپ کی مخالفت سے باز آجائیں اور آپ کو دشمنوں کا مقابلہ کرنے دیں اور اس کے لیے 10دس سال کی مدت مقرر کی کہ اس معیاد کے اندر اگر میں جھوٹا ہوں تو خود تباہ ہو جاؤں گا اور اگر سچا ہوں تو تم عذاب سے بچ جاؤ گے جو سچوں کی مخالفت کے سبب خداتعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتا ہے۔ لیکن مسلمانوں نے اس کو قبول نہ کیا اور دشمنان اسلام سے مقابلہ کرنے کی بجائے اپنے سے ہی مقابلہ پسندکیا۔