سیرت مسیح موعود علیہ السلام
وفات کی پیشگوئی اور سلسلہ کا نظام۔ صَدرانجمن کا قیام
دسمبر1905ء میں آپ کو الہام ہوا کہ آپ کی وفات قریب ہے جس پر آپ نے ایک رسالہ “الوصیّۃ” لکھ کر اپنی تمام جماعت میں شائع کر دیا اور اُس میں جماعت کو اپنی وفات کے قُرب کی خبر دی اور اُن کو تسلی دی اور الہام الٰہی کے ماتحت ایک مقبرہ بنائے جانے کا اعلان فرمایا اور اُس میں دفن ہونے والوں کے لیے یہ شرط مقرر کی کہ وہ اپنی تمام جائیداد کا دسواں حصہ اشاعتِ اسلام کے لیے دیں اور تحریر فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بشارت دی ہے کہ اِس مقبرہ میں صرف وہی دفن ہو سکیں گے جو جنّتی ہوں گے اور ان اموال کی حفاظت کے لیے جو اس مقبرہ میں دفن ہونے کے لیے لوگ بغرض اشاعت اسلام دیں گے ایک انجمن مقرر فرمائی۔ اِس انتظام کے علاوہ یہ بھی پیشگوئی کی کہ جماعت کی حفاظت اور اس کو سنبھالنے کے لیے خداتعالیٰ خود میری وفات کے بعد اسی طرح انتظام کرے گا جس طرح کہ پہلے نبیوں کے بعد کرتا رہا ہے اور ایسے لوگوں کو کھڑا کرتا رہے گا جو جماعت کی نگرانی اسی طرح کریں گے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے کی تھی۔ سلسلہ کی ضروریاتِ تعلیمی و تبلیغی کے لیے الوصیّۃ کی اشاعت تک مدرسہ اور میگزین کی انتظامی کمیٹیاں تھیں اور مقبرہ کے لیے ایک جدید انجمن تجویز ہوئی مگر خدام کی درخواست پر 1906ء کے دسمبر میں آپ نے اس انجمن کی بجائے جسے وصیتوں کے اموال کی حفاظت کے لیے مقرر کیا گیا تھا ایک ایسی انجمن قائم کر دی جس کے سپرد دینی اور دُنیاوی تعلیم کے مدارس، ریویوآف ریلیجنز، مقبرہ بہشتی وغیرہ سب متفرق کام کر دیئے اور مختلف انجمنوں کی بجائے ایک ہی صدر انجمن قائم کر دی۔
1907ء میں ستمبر کے مہینے میں آپ کا لڑکا مبارک احمد اس پیشگوئی کے مطابق جواس کی پیدائش کے وقت ہی چھاپ کر شائع کر دی گئی تھی، ساڑھے آٹھ سال کی عمر میں فوت ہوگیا۔
اِسی سال صدرانجمن کی مختلف شہروں میں شاخیں قائم کرنے کی تجویز کی گئی۔ دو مرد اور ایک عورت امریکن آپ سے ملنے کے لیے آئے جن سے دیر تک گفتگو ہوئی اور انہیں مسیح کی بعثتِ ثانیہ کی حکمت اور اصلیت سمجھائی۔
اِس سال پنجاب میں کچھ ایجی ٹیشن پیدا ہو گیا اس پر آپ نے اپنی جماعت کو گورنمنٹ کا ہرطرح وفادار رہنے کی تاکید فرمائی اور مختلف جگہ پر آپ کی جماعت نے اِس شورش کے فرو کرنے میں بِلا کسی لالچ کے خدمت کی۔
دسمبر میں آریوں نے لاہور میں ایک مذہبی کانفرنس منعقد کی اور سب مذاہب کے لوگوں کو اس میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ لیکن یہ شرط رکھی کہ کسی مذہب کے پَیروؤں کو دوسرے مذہب پر حملہ کرنے کی اجازت نہ ہوگی اور خود بھی اسی شرط کی پابندی کا اقرار کیا۔ آپ سے بھی اس میں شامل ہونے کی درخواست کی گئی تو آپ نے اُسی وقت کہہ دیا کہ مجھے تو اس تجویز میں دھوکے کی بو آتی ہے لیکن پھر بھی حجت پوری کرنے کے لیے ایک مضمون لکھ کر اُس میں پڑھنے کے لیے بھیج دیا۔ اس مضمون میں آپ نے بڑے زور سے آریوں کو صلح کی دعوت دی اور نہایت نرمی سے صرف اسلام کی خوبیاں ان کے سامنے پیش کیں۔ ہماری جماعت کے قریباً پانچ سَو آدمی ٹکٹ خرید کر اس کانفرنس میں شامل ہوتے رہے اور ہمارے باعث دوسرے مسلمان بھی شامل ہوتے رہے لیکن جب آریوں کی باری آئی تو انہوں نے نہایت گندہ طور پر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں اور بُرے سے بُرے الفاظ حضورؐ کی نسبت استعمال کیے لیکن ہم آپؐ کی تعلیم کی ماتحت خاموشی سے اُن لیکچروں کو سنتے رہے اور کسی نے اُٹھ کر اِتنا بھی نہیں کہا کہ ہم سے وعدہ خلافی کی گئی ہے۔
21 مارچ 1908ء میں سرولسن صاحب بہادر فنانشل کمشنر صوبہ پنجاب قادیان تشریف لائے۔ چونکہ یہ پہلا موقعہ تھا کہ پنجاب کا ایک ایسا معزز اعلیٰ عہدیدار قادیان آیا۔ آپ نے تمام جماعت کو ان کے استقبال کا حکم دیا اور اپنی سکول گراؤنڈ میں اُن کا خیمہ لگوایا اور ان کی دعوت بھی کی۔ چونکہ آپ کی نسبت آپ کے مخالفین نے مشہور کر رکھا تھا کہ آپ درپردہ گورنمنٹ کے مخالف ہیں کیونکہ افسرانِ بالا سے باوجود اپنے قدیم خاندانی تعلقات کے کبھی نہیں ملتے آپ نے عملی طور پر اس اعتراض کو دور کر دیا اور فنانشل کمشنر صاحب سے ملاقات کے لیے خود تشریف لے گئے۔ اُس وقت آپ کے ساتھ سات آٹھ آدمی آپ کی جماعت کے بھی تھے۔ صاحب ممدوح نے نہایت تکریم کے ساتھ اپنے خیمہ کے دروازے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ریسیو کیا اور آپ سے مختلف امور آپ کے سلسلہ کے متعلق دریافت کرتے رہے لیکن اس تمام گفتگو میں ایک بات خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اُن دنوں میں مسلم لیگ نئی نئی قائم ہوئی تھی اور حکّامِ انگریزی اس کی کونسی ٹیوشن پر ایسے خوش تھے کہ اُن کے خیال میں کانگریس کے نقائص دور کرنے میں یہ ایک زبردست آلہ ثابت ہوگی اور بعض حکّام رؤساء کو اشارۃً اِس میں شامل ہونے کی تحریک بھی کرتے تھے۔ فنانشل کمشنر صاحب بہادر نے بھی برسبیلِ تذکرہ آپ سے مسلم لیگ کا ذکر کیا اور اس کی نسبت آپ کی رائے دریافت کی۔ آپ نے فرمایا مَیں اسے پسند نہیں کرتا۔ فنانشل کمشنر نے اس کی خوبی کا اقرار کیا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ راہ خطرناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ اسے کانگرس پر قیاس نہ کریں اس کا قیام تو ایسے رنگ میں ہوا تھا کہ اس کا اپنے مطالبات مںگ حد سے بڑھ جانا شروع سے نظر آ رہا تھا لیکن مسلم لیگ کی بنیاد ایسے لوگوں کے ہاتھوں اور ایسے قوانین کے ذریعے پڑی ہے کہ یہ کبھی کانگرس کا رنگ اختیار کر ہی نہیں سکتی۔ اس پر آپ کے ایک مرید خواجہ کمال الدین نے جو ووکنگ مشن کے بانی اور رسالہ مسلم انڈیا کے مالک ہیں، سرولسن کی تائید کی اور کہا کہ مَیں بھی اس کا ممبر ہوں اس کے ایسے قواعد بنائے گئے ہیں کہ اس کے گمراہ ہونے کا خطرہ نہیں۔ مگر دونوں کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے تو اس سے بو آتی ہے کہ ایک دن یہ بھی کانگرس کا رنگ اختیار کر لے گی۔ مَیں اس طرح سیاست میں دخل دینے کو خطرناک سمجھتا ہوں۔ یہ گفتگو تو اس پر ختم ہوئی لیکن ہر ایک سیاسی واقعات کا مطالعہ کرنے والا جانتا ہے کہ آپ کا خیال کس طرح لفظ بلفظ پورا ہوا۔
اِسی سال 26 اپریل کو بوجہ والدہ صاحبہ کی بیماری کے آپ کو لاہور جانا پڑا۔ جس دن قادیان سے چلنا تھا اُس رات کو الہام ہوا:۔
“مباش ایمن از بازیٔ روزگار“
یعنی حوادثِ زمانہ سے بے خوف مت ہو۔ اِس پر آپ نے فرمایا کہ آج یہ الہام ہوا ہے کہ جو کسی خطرناک حادثہ پر دلالت کرتا ہے۔ اتفاق سے اُسی رات میرے چھوٹے بھائی مرزا شریف احمد بیمار ہوگئے لیکن جس طرح سے ہو سکا روانہ ہوئے جب بٹالہ پہنچے، جو قادیان کا اسٹیشن تھا، تو وہاں معلوم ہوا کہ بوجہ سرحدی شورش کے گاڑیاں کافی نہیں اِسی لیے گاڑی ریزرو نہیں ہو سکی وہاں دو تین دن انتظار کرنا پڑا۔ آپ نے اپنے گھر میں فرمایا کہ اِدھر الہام متوحش ہوا ہے اُدھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے روکیں پڑ رہی ہیں۔ بہتر ہے کہ یہیں بٹالہ میں کچھ عرصہ کے لیے ٹھہر جائیں آب و ہَوا تبدیل ہو جائے گی۔ علاج کے لیے کوئی لیڈی ڈاکٹر یہیں بُلا لی جائے گی۔ لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ نہیں لاہور ہی چلو۔ آخر دو تین دن کے انتظار کے بعد آپ لاہور تشریف لے گئے۔ آپ کے پہنچتے ہی تمام لاہور میں ایک شور پڑ گیا اور حسب دستور مولوی لوگ آپ کی مخالفت کے لیے اکٹھے ہوگئے۔ جس مکان میں آپ اُترے ہوئے تھے اُس کے پاس ہی ایک میدان میں آپ کے خلاف لیکچروں کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو روزانہ بعد نماز عصر سے لے کر رات کے نو دس بجے تک جاری رہتا۔ اِن لیکچروں میں گندی سے گندی گالیاں آپ کو دی جاتیں اور چونکہ آپ کے مکان تک پہنچنے کا یہی راستہ تھا آپ کی جماعت کو سخت تکلیف ہوتی لیکن آپ نے سب کو سمجھا دیا کہ گالیوں سے ہمارا کچھ نہیں بگڑتا تم لوگ خاموش ہو کے پاس سے گزر جایا کرو۔ اُدھر دیکھا بھی نہ کرو۔ چونکہ اس دفعہ لاہور میں کچھ زیادہ رہنے کا ارادہ تھا اس لیے جماعت کے احباب چاروں طرف سے اکٹھے ہوگئے تھے اور ہر وقت ہجوم رہتا تھا اور لوگ بھی آپ سے ملنے کے لیے آتے رہتے تھے۔