شمائل محمد صلی اللہ علیہ وسلم
2 ۔ آغازِ وحی
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ سب سے پہلے حضور ﷺ کوسچی خوابیں آنے لگیں جو خواب بھی آتی وہ نمود صبح کی طرح روشن اور صحیح نکلتی۔ حضور کو خلوت پسند تھی اور غارحرا میں جا کر عبادت کرتے تھے۔ آپ کچھ سامان اپنے ہمراہ لے جاتے جب ختم ہوجاتا تو دوبارہ گھر آکرکھانے پینے کا سامان لے جاتے۔ اسی اثناء میں آپؐ کے پاس ایک فرشتہ آیا اور کہا پڑھو آپؐ نے کہا میں نہیں پڑھ سکتا۔ فرشتے نے آپؐ کو زور سے بھینچا پھر چھوڑ دیا اور کہا پڑھو۔ حضورؐ نے کہا میں نہیں پڑھ سکتا۔ فرشتہ نے دوسری مرتبہ پھربھینچا اور پھر چھوڑ دیا اور کہا پڑھو۔ حضورؐ نے کہا میں نہیں پڑھ سکتا۔ فرشتہ نے تیسری مرتبہ پھر دبایا‘اور چھوڑ دیا اور کہااپنے اس پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے انسان کوپیدا کیا۔ پڑھو دراں حا لیکہ تیرا رب عزت والا اور کرم والا ہے۔ اس کے بعدحضور ﷺ گھر واپس آئے آپ ﷺ کادل لرز رہاتھا۔ اپنی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہؓ کے پاس آکر کہا مجھے کمبل اوڑھا دو چنانچہ انہوں نے کمبل اوڑھا دیا۔ جب آپؐ کی یہ گھبراہٹ جاتی رہی توحضرت خدیجہؓ کو سارا واقعہ بتایا اور اس خیال کااظہار کیا کہ میں اپنے متعلق ڈرتا ہوں (کہ میں یہ اہم کام کر بھی سکوں گا یانہیں ) اس پر حضرت خدیجہؓ نے کہا کہ خدا کی قسم اللہ تعالیٰ آپؐ کو کبھی رسوا نہیں ہونے دے گا۔ آپؐ صلہ رحمی کرتے ہیں ، کمزوروں کو اٹھاتے ہیں ۔ جو خوبیاں معدوم ہوچکی ہیں ان کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، مہمان نواز ہیں ، ضرورت حقہ میں امداد کرتے ہیں ۔ پھرحضرت خدیجہؓ ان کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں یہ حضرت خدیجہؓ کے چچازادبھائی تھے۔اور زمانہ جاہلیت میں عیسائی ہوگئے تھے۔ عبرانی جانتے تھے اور عبرانی اناجیل لکھ پڑھ سکتے تھے وہ بہت بوڑھے ہوچکے تھے بینائی بھی جاتی رہی تھی۔ حضرت خدیجہ نے ورقہ سے کہا اپنے بھتیجے کی بات سنو۔ چنانچہ ورقہ نے کہا میرے بھتیجے تم نے کیا دیکھاہے۔ حضورؐ نے سارا واقعہ بیان فرمایا۔ اس پر ورقہ نے کہا یہ وہی روح القدس ہے جو حضرت موسیٰ پر نازل ہوا۔ کاش، جس وقت تیری قوم تجھے نکالے گی۔ اس وقت میں مضبوط جوان ہوتا یا زندہ رہتا تو میں پوری طاقت سے آپؐ کی مدد کرتا۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے حیران ہو کر پوچھا کیا یہ مجھے نکال دیں گے؟ انہوں نے کہا جس آدمی کو بھی یہ مقام ملا ہے جو آپؐ کو دیا گیا ہے۔ اس سے ضرور دشمنی کی گئی ۔ اگر مجھے وہ دن دیکھنانصیب ہوا تو میں پوری مستعدی سے آپؐ کی مدد کروں گا، لیکن افسوس کہ ورقہ اس کے بعد جلد ہی فوت ہوگئے۔ (صحیح بخاری باب کیف کان بدء الوحی)