شمائل محمد صلی اللہ علیہ وسلم
33 ۔ ازواج سے حسن سلوک
ر حیم و کریم
حضرت عائشہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ کبھی کوئی درشت کلمہ اپنی زبان پر نہ لائے۔ نیز فرماتی ہیں کہ آپؐ تمام لوگوں سے زیادہ نرم خو تھے اور سب سے زیادہ کریم۔ عام آدمیوں کی طرح بلا تکلف گھر میں رہنے والے، آپؐ نے منہ پر کبھی تیوری نہیں چڑھائی ہمیشہ مسکراتے ہی رہتے تھے۔ حضرت عائشہؓ کا یہ بھی بیان ہے کہ اپنی ساری زندگی میں آنحضرتؐ نے اپنے کسی خادم یا بیوی پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ (شمائل الترمذی باب فی خلق رسول اللہ)
حضرت خدیجہ کی یاد
حضرت خدیجہؓ کی زندگی میں بلکہ ان کی وفات کے بعد بھی آپؐ نے کئی سال تک دوسری بیوی نہیں کی اور ہمیشہ محبت اور وفا کے جذبات کے ساتھ حضرت خدیجہؓ کا محبت بھرا سلوک یاد کیا۔ آپؐ کی ساری اولاد جو حضرت خدیجہؓ کے بطن سے تھی اس کی تربیت وپرورش کا خوب لحاظ رکھا۔ نہ صرف ان کے حقوق ادا کئے بلکہ خدیجہؓ کی امانت سمجھ کر ان سے کمال درجہ محبت فرمائی۔ حضرت خدیجہؓ کی بہن ہالہ کی آواز کان میں پڑتے ہی کھڑے ہوکر ان کا استقبال کرتے اور خوش ہو کر فرماتے خدیجہؓ کی بہن ہالہ آئی ہے۔ گھر میں کوئی جانور ذبح ہوتا تو اُس کا گوشت حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں میں بھجوانے کی تاکید فرماتے۔ الغرض آپؐ خدیجہؓ کی وفاؤں کے تذکرے کرتے تھکتے نہ تھے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ‘‘مجھے کبھی کسی زندہ بیوی کے ساتھ اتنی غیرت نہیں ہوئی جتنی حضرت خدیجہؓ کے ساتھ ہوئی حالانکہ وہ میری شادی سے تین سال قبل وفات پاچکی تھیں۔’’ کبھی تو میں اُکتا کر کہہ دیتی یا رسول اللہؐ !اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنی اچھی بیویاں عطا فرمائی ہیں اب اس بڑھیا کاذکر جانے بھی دیں۔ آپؐ فرماتے ‘‘نہیں نہیں خدیجہ اس وقت میری سِپر بنیں جب میں بے یار و مدد گارتھا۔وہ اپنے مال کے ساتھ مجھ پر فدا ہوگئیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے اولاد عطا کی۔ انہوں نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگوں نے جھٹلایا۔’’ (مسلم کتاب الفضائل۔ فضائل خدیجہ ۔بخاری کتاب الادب باب حسن العہدمن الایمان مسند احمدبن جنبل جلد6صفحہ118)
سراپا محبت
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ جب میں بیاہ کر آئی تو میں حضورؐ کے گھر میں بھی گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی اور میری سہیلیاں بھی تھیں جو میرے ساتھ مل کر گڑیوں سے کھیلا کرتی تھیں ۔ جب حضورؐ گھر تشریف لاتے(اور ہم کھیل رہی ہوتیں ) تو میری سہیلیاں حضورؐ کو دیکھ کر ادھر اُدھر کھسک جاتیں لیکن حضورؐ ان سب کو اکٹھا کرکے میرے پاس لے آتے اور پھر وہ میرے ساتھ مل کر کھیلتی رہتیں ۔ (صحیح بخاری کتاب الادب باب الانبساط الی الناس)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ جب حضورؐ جنگ تبوک سے واپس آئے یا شاید یہ اس وقت کی بات ہے جب حضورؐ خیبر سے واپس آئے تومیرے پاس تشریف لائے۔ ان کے صحن میں ایک جگہ پردہ لٹک رہا تھا ہوا کا ایک جھونکا آیا تو اس پردہ کا ایک سراہٹ گیا۔ اس پردہ کے پیچھے حضرت عائشہؓ کی گڑیاں رکھی تھیں پردہ ہٹا تو وہ نظر آنے لگیں ۔
آنحضرت ﷺ نے پوچھاعائشہؓ یہ کیا ہے۔انہوں نے جواب دیاکہ میری گڑیاں ہیں ۔حضورؐ کی نظر پڑی تو دیکھا کہ ان گڑیوں کے درمیان میں ایک گھوڑا کھڑا ہے جس کے چمڑے کے پر ہیں ۔ آپؐ نے فرمایا مجھے ان گڑیوں کے درمیان کیا نظر آرہا ہے۔ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا کہ گھوڑا ہے۔آپؐ نے پوچھا(پروں کی طرف اشارہ کرکے) کہ گھوڑے کے اوپر یہ کیا چیز ہے۔ حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ پر ہیں ۔ آپؐ نے فرمایا بھئی تعجب ہے پروں والا گھوڑا ہے۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ آپؐ نے سنا نہیں کہ حضرت سلیمان کا بھی ایک گھوڑا تھا جس کے بہت سے پر تھے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب میں نے یہ کہا تو حضورؐ بے اختیار ہنس پڑے اور ایسی شگفتہ کھلی ہوئی ہنسی تھی کہ حضورؐ ہنسے تو دہن مبارک اتنا کھل گیا کہ مجھے حضورؐ کے سامنے کے آخری دانت بھی نظر آنے لگے۔(بخاری کتاب الادب باب اللعب بالبنات)
کھیل دکھایا
ایک عید کے موقع پر اہلِ حبشہ مسجدنبویؐ کے وسیع دالان میں جنگی کرتب دکھا رہے تھے رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہؓ سے فرماتے ہیں کہ کیا تم بھی یہ کرتب دیکھنا پسند کروگی اور پھر ان کی خواہش پر انہیں اپنے پیچھے کرلیتے ہیں ۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں دیرتک آپؐ کے پیچھے کھڑی رہی اور آپؐ کے کندھے پر ٹھوڑی رکھے آپؐ کے رخسار کے ساتھ رخسار ملا کے یہ کھیل دیکھتی رہی۔آپؐ بوجھ سہارے کھڑے رہے یہاں تک کہ میں خود تھک گئی۔ آپؐ فرمانے لگے اچھا کافی ہے تو پھر اب گھر چلی جاؤ۔(بخاری کتاب العیدین باب الحراب والدرق یوم العید)