شمائل محمد صلی اللہ علیہ وسلم
17 ۔ ایفائے عہد
حق دلوایا
حضور ﷺ نے اپنی جوانی میں معاہدہ حلف الفضول میں شرکت کی تھی جس کے سب شرکاء نے وعدہ کیا کہ ہم ہمیشہ ظلم روکیں گے اور مظلوم کی مدد کریں گے۔
اس عہد کی حضورؐ نے اس وقت بھی پاسداری کی۔ بلکہ سب سے بڑھ کرکی اور حقیقت میں ایفائے عہد کے شاندار نظارے بعثت کے بعد دکھلائے جب شدید دشمنوں اور ظالموں کے مقابل پر حضورؐ نے اپنی جان اور عزت کی پروا نہ کرتے ہوئے معاہدہ حلف الفضول کے تحت مظلوموں کا حق دلوانے کی بھرپور سعی کی۔
اس کی تائید میں یہ واقعہ ملاحظہ فرمائیے۔
اراش قبیلہ کا ایک فرد مکہ میں اونٹ بیچنے کے لئے لایا۔ ابوجہل نے اس سے ایک اونٹ خریدا اور رقم ادا کرنے کے لئے ٹال مٹول کرنے لگا۔
وہ شخص دہائی دیتا ہوا قریش کے سرداروں کی مجلس میں پہنچ گیا۔ اور بلند آواز سے کہنے لگا۔
اے سردار مجھ غریب مسافر کا حق ابوالحکم نے مارلیا ہے۔ مجھے اونٹ کی قیمت دلا دو۔
اس وقت حضور ﷺ مسجد حرام کے ایک گوشے میں تشریف فرما تھے۔ او ر وہ سب سردار جانتے تھے کہ ابوجہل حضور ﷺ سے سخت دشمنی رکھتا ہے۔ انہوں نے اس شخص سے استہزاء کرتے ہوئے حضورؐ کی طرف اشارہ کیا اور کہا یہ شخص تجھے حق دلاسکتا ہے۔
وہ شخص حضورؐ کے پاس پہنچا اور اپنی داستان سنائی۔ حضورؐ اس کی بات سن کر اٹھ کھڑے ہوئے اور ابوجہل کی طرف جانے لگے۔ قریشی سرداروں نے ایک شخص سے کہا کہ تو ان کے پیچھے جا اور دیکھ کیا ہوتا ہے۔
حضورؐ اس شخص کے ساتھ ابوجہل کے دروازہ پر پہنچے۔ دستک دی۔ اس نے پوچھا کون ہے فرمایا میں محمدؐ ہوں تم باہرآؤ۔
ابوجہل باہر آیا تو فرمایا اس شخص کا حق ادا کرو۔
وہ کہنے لگا آپ یہیں ٹھہریں میں ابھی اس کی رقم لے کر آتا ہوں ۔ چناچہ وہ گھر گیا اور رقم لے آیا۔ وہ شخص واپس جاتے ہوئے اہل قریش کی اسی مجلس کے پاس ٹھہرا اور کہا اللہ محمدکو جزا دے مجھے میرا حق مل گیا۔
اتنی دیر میں وہ شخص جو حضورؐ کے تعاقب میں بھیجا گیا تھا واپس آگیا اور ابوجہل کے متعلق سارا واقعہ بیان کیا تو سب سخت حیران ہوئے۔
تھوڑی دیر بعد ابوجہل آیا تو سب نے اسے لعن طعن کی۔
اس نے کہا جب میں محمدؐ کے بلانے پر باہر آیا تھا تو میں نے دیکھا کہ محمدؐ کے پیچھے قوی الجثہ خوفناک جبڑوں والا اونٹ ہے اور اگر میں انکار کرتا تو وہ مجھے نگل جاتا۔ (السیرۃ النبویہ لابن کثیر جلداول ص 469 داراحیاء التراث العربی بیروت)
عہد کو پورا کرو
عہد کی پابندی کا جو احساس حضور ﷺ کے قلب مبارک میں تھا اس کا ایک عجیب نظارہ غزوہ بدر میں نظر آیا۔حضرت حذیفہ بن یمانؓ کہتے ہیں کہ میں غزوہ بدر میں شامل نہ ہوسکا اس کی وجہ یہ ہوئی کہ میں اور میرا ایک ساتھی ابوحسیل سفر میں تھے کہ کفار مکہ نے ہمیں پکڑلیا کہ تم محمد(ﷺ) کے پاس جارہے ہو(تا کہ آپ کے لشکر میں شامل ہوجاؤ)۔ ہم نے کہا ہم تو مدینہ جارہے ہیں ۔ اس پر انہوں نے ہم سے یہ عہد لے کر چھوڑا کہ ہم مدینہ چلے جائیں گے اور کفار کے خلاف لڑائی میں شامل نہ ہوں گے۔ یہ عہد گو جارحانہ حملہ اور وں نے جبراً لیا تھا اور کسی معروف ضابطہ اخلاق میں اس کا ایفاء لازمی نہیں تھا مگر حضورﷺ کو عہد کا اتنا پاس تھا کہ ایسے نازک وقت میں جبکہ ایک ایک سپاہی کی ضرورت تھی آپؐ نے فرمایاتو پھر تم جاؤ اور اپنے عہد کوپورا کرو۔ ہم اللہ سے ہی مدد چاہتے ہیں اور اسی کی نصرت پر ہمارا بھروسہ ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الجہاد باب الوفاء بالعہد)
صبر کرو ہم بدعہدی نہیں کرسکتے
صلح حدیبیہ میں ایک شرط یہ تھی کہ مکہ سے جو مسلمان ہو کر مدینہ چلا جائے گا وہ اہل مکہ کے مطالبہ پر واپس کردیا جائے گا۔ عین اس وقت جب معاہدہ کی شرطیں زیر تحریر تھیں اور آخر ی دستخط نہ ہوئے تھے حضرت ابو جندلؓ پابہ زنجیر اہل مکہ کی قید سے بھاگ کر آئے اور رسول اللہؐ سے فریاد ی ہوئے۔ تمام مسلمان اس درد انگیز منظر کو دیکھ کر تڑپ اٹھے لیکن آنحضرت ﷺ نے باطمینان تمام ان کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا ‘‘اے ابوجندل! صبر کرو ہم بدعہدی نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ عنقریب تمہارے لئے کوئی راستہ نکالے گا۔’’ (صحیح بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجہاد)
میں تین دن سے انتطار کر رہا ہوں
حضرت عبداللہ بن ابی الحمسائؓ بیان کرتے ہیں کہ بعثت سے پہلے میں نے ایک دفعہ آنحضرت ﷺکے ساتھ کوئی کاروباری معاملہ کیا اور میرے ذمہ آپ کا کچھ حساب باقی رہ گیا جس پر میں نے آپؐ سے کہا کہ آپؐ یہیں ٹھہریں میں ابھی آتا ہوں ۔ مگر مجھے بھول گیا اور تین دن کے بعد یاد آیا ۔ اس وقت جب میں اس طرف گیا تو حضور ﷺ وہیں کھڑے تھے مگر آپؐ نے سوائے اس کے مجھے کچھ نہیں کہا کہ ‘‘تم نے مجھے تکلیف میں ڈالا ہے۔ میں یہاں تین دن سے تمہارے انتظار میں ہوں۔’’(ابوداؤد کتاب الادب باب فی العدۃ)
اس سے مراد یہ تو نہیں ہوسکتی کہ آپ مسلسل تین دن تک اسی جگہ ٹھہرے رہے بلکہ منشاء معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ مناسب اوقات مںھ کئی دفعہ اس جگہ پر عبداللہ کا انتظارکرتے رہے ہوں گے تا کہ عبداللہ کو اپنا وعدہ پورا کرنے اور آپؐ کو تلاش کرنے میں دقت نہ ہو۔