شمائل محمد صلی اللہ علیہ وسلم
34 ۔ بچوں پر شفقت
حضورؐ بچوں کے ساتھ بہت زیادہ پیار کرتے تھے اور ان کے ساتھ انتہائی حسن خلق سے پیش آتے تھے۔ بچوں کے پاس سے گزرتے۔ بچوں سے ملتے تو ہمیشہ انہیں سلام کرتے۔
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ کچھ بچے کھیل رہے تھے حضورؐ ان کے پاس سے گزرے تو حضورؐ ان کو پہلے سلام کیا۔(سنن ابی داؤد کتاب السلام باب فی السلام علی الصبیان)
حضورؐ بچوں سے بہت بے تکلف تھے۔ بچوں کو بڑا پیار اور توجہ دیتے۔ ان سے ہنسی مذاق کرتے انہیں چھیڑتے۔ ان سے دل لگی کرتے۔ ان کو بہلاتے۔
حضرت جابر بن سمرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی۔ نمازکے بعد حضورؐ اہل خانہ کی طرف جانے لگے تو میں بھی حضورؐ کے ساتھ چل پڑا۔ وہاں پہنچے تو آگے بچے حضورؐ کے استقبال کے لئے کھڑے تھے حضورؐ ان کے پاس رک گئے۔ ا یک ایک بچے کے کلوں کو حضورؐ نے اپنے ہاتھ سے سہلایا وہ کہتے ہیں کہ میں تو حضورؐ کے ساتھ آیا تھا لیکن حضورؐ نے پھرمیرے کلوں کو بھی سہلایا۔ جب حضورؐ اپنا ہاتھ میرے کلوں پر پھیررہے تھے تو مجھے حضورؐ کے ہاتھوں میں ایسی ٹھنڈک اور خوشبو محسوس ہوئی گویا حضورؐ نے انہیں کسی عطار کے تھیلے سے نکالا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الفضائل باب طیب رائحۃ النبیؐ )
شفقت کا سمندر
حضورؐ باہر سے تشریف لاتے بچے آپؐ کو دیکھ کر آگے بڑھتے آپؐ ان کو سواری پر آگے پیچھے بٹھالیتے ایک بار ایک بدو یعنی دیہات کا رہنے والا آیا۔ اس نے دیکھا آپؐ بچوں سے پیار کر رہے ہیں ۔ اس نے عرض کی حضورؐ میرے تو اتنے بچے ہیں ۔ میں نے کبھی کسی سے پیار نہیں کیا۔ آپؐ نے فرمایا اگر خدا نے تمہارے دل سے شفقت لے لی ہوتو میں کیا کرسکتا ہوں ۔ پھر فرمایا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔ خدا بھی اس پر رحم نہیں کرتا۔ (الادب المفردللبخاری باب قبلۃ الصبیان)
بچوں سے دل لگی
حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا ہمارے گھر آنا جانا تھا۔ میرا ایک چھوٹا بھائی تھا جس کو ابوعمیر کہہ کر پکارتے تھے۔ اس کی ایک سرخ چونچ والی بلبل تھی جس سے وہ کھیلا کرتا تھا وہ مرگئی۔ اس کے مرنے کے بعد حضورؐ ہمارے ہاں آئے تو عمیر کو افسردہ دیکھا پوچھا اس کو کیا ہوگیا ہے۔ چپ چپ ہے۔ گھر والوں نے عرض کیا کہ اس کی نُغیریعنی بلبل مرگئی ہے۔ اس پر آپؐ نے ابوعمیر کو بہلانے کے لئے اس کو یہ کہہ کر چھیڑنا شروع کیا کہ یا ابا عمیر مافعل النغیر کہ اے ابوعمیر نغیرتجھ سے کیا کرگئی۔ (سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی الرجل تیکنی)
شفیق باپ
آنحضرت ﷺ کے صحابی حضرت ابوقتادہؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم ظہر یا عصر کی نماز کے لئے آنحضرت ﷺ کا انتظار مسجد نبوی میں کر رہے تھے۔ حضرت بلالؓ حضورؐ کو نماز کی اطلاع دے کر نماز کے لئے آنے کے لئے عرض کر چکے تھے لیکن دیر ہورہی تھی اور ہم انتظار میں بیٹھے تھے کہ حضورؐ تشریف لائے اس طرح کہ حضورؐ نے ابوالعاص سے حضرت زینبؓ کی بچی امامہ کو اپنی گردن پر اٹھایا ہوا تھا۔ حضورؐ اسی طرح امامہ کو اٹھائے ہوئے آگے بڑھے اور اپنی نماز کی جگہ پہنچ کر کھڑے ہوگئے۔ ہم بھی حضورؐ کے پیچھے کھڑے ہوگئے لیکن امامہ اسی طرح حضورؐ کی گردن پر بیٹھی رہی اور اسی حالت میں حضورؐ نے تکبیر کہی اور ہم نے بھی تکبیر کہی۔ حضورؐ نے امامہ کو اٹھائے ہوئے قیام کیا اور جب رکوع کرنے لگے تو انہیں گردن سے اتار کر نیچے بٹھا دیا پھر رکوع کیا اور سجدے کئے۔ جب سجدوں سے فارغ ہو کر قیام کے لئے کھڑے ہونے لگے تو امامہ کو اٹھا کر پھر اپنی گردن پر بٹھالیا اور حضورؐ ساری نماز میں اسی طرح کرتے رہے۔ رکوع کرنے سے پہلے اتار دیتے اور سجدوں کے بعد قیام کے وقت اٹھالیتے یہاں تک کہ حضورؐ نماز سے فارغ ہوگئے۔ (سنن ابوداؤد کتاب الصلوۃ باب العمل فی الصلوۃ)
رحم کا آسمانی جذبہ
حضرت اسامہؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضورؐ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ نے حضورؐ کو کہلابھیجاکہ میرا بیٹا آخری سانس لے رہا ہے تشریف لائیں ۔ حضورؐ نے ان کو سلام کہلایا اور کہلا بھیجا کہ صبر کرو جو کچھ اللہ دیتا ہے یا واپس لیتا ہے وہ سب اللہ کا ہی ہے۔ ہر چیز اس کے ہاں ایک معین مدت کے لئے ہے۔ حصول ثواب کے لئے صبرسے کام لو(مجھے احساس ہوتا ہے کہ حضورؐ کے انکار کی وجہ یہ تھی کہ حضورؐ بچے کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے) بہرحال حضرت زینبؓ نے دوبارہ پیغام کہلا بھیجا اور قسم دی کہ حضورؐ ضرور تشریف لے آئیں تب حضورؐ مجلس سے اٹھ کھڑے ہوئے اور حضورؐ کے ساتھ اور صحابہؓ کے علاوہ سعدبن عبادہؓ معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت بھی اٹھے۔ جب آپؐ حضرت زینبؓ کے ہاں پہنچے تو بچہ حضورؐ کی گود میں دیا گیا۔ اس کا سانس اکھڑا ہوا تھا اور سانس میں ایسی آواز پیدا ہورہی تھی جیسے پانی کی بھری مشک سے پانی نکلے تو پیدا ہوتی ہے۔ حضورؐ نے بچے کو گود میں لے لیا۔ اس کی طرف دیکھا بے اختیار آنسو بہہ پڑے۔ سعدؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ یہ کیا ہے۔ آپؐ کیوں رونے لگے۔ آپؐ نے جواب دیا کہ یہ وہ رحم کا جذبہ ہے جو خدا نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھا ہوتا ہے۔ خدا اپنے بندوں میں سے ان پر رحم کرتا ہے جو خود رحم کرنے والے ہوتے ہیں ۔ (صحیح بخاری کتاب الجنائز باب یعذب ا لمیت)
حضرت فاطمہؓ سے پیار
آنحضرت ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ جب حضورؐ سے ملنے کے لئے آتیں تو حضور کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے۔ ان کا ہاتھ پکڑ کر اسے بوسہ دیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ (سنن ترمذی کتاب المناقب باب مناقب فاطمہ)
زید سے محبت
حضورؐ کا منہ بولا بیٹا زیدؓ تھا جس کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے یہ ایک غلام تھا اور عربوں میں غلام کی کوئی حیثیت نہ تھی یہ طبقہ بہت ہی مظلوم و مقہور تھا ۔ مالک جو چاہتا اس سے سلوک کرتا۔ حالت مویشیوں سے بھی بدتر تھی۔ حضورؐ نہ صرف زید کو بہت عزیز رکھتے تھے بلکہ ان کے بیٹے اسامہ سے بھی بہت پیار کرتے اپنے بچوں کی طرح اسے رکھتے۔ حضورؐ اپنے نواسے حسین کو ایک زانو پر بٹھالیتے اور اسامہ کو دوسرے پر اور دونوں کو سینہ سے لگا کر بھینچتے اور فرماتے اللہ میں ان سے پیار کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کی جئیو۔ حضرت اُسامہ کا ناک خود صاف کرتے۔ (صحیح بخاری کتاب المناقب باب الحسن والحسین ۔سنن ترمذی کتاب المناقب باب مناقب اسامہ)