شمائل محمد صلی اللہ علیہ وسلم
6 ۔ تہجدو نوافل
پاؤں سوج جاتے
نماز باجماعت کے علاوہ آنحضور ﷺ باقاعدگی سے نوافل اور نماز تہجد کا التزام فرمایا کرتے تھے۔ جب سب دنیا سورہی ہوتی آپؐ اپنے بستر کو چھوڑ کر بے قرار دل کے ساتھ اپنے خالق و مالک اور محبوب ازلی کے حضور حاضر ہو جاتے۔ اور اپنی مناجات پیش کرتے۔گویا دربار خاص لگ جاتا جس میں آپؐ ہوتے اور سامنے آپ کا رب ہوتا۔
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہمارا رب جو بڑی برکت اور بڑی شان والا ہے ہر رات جب اس کا ایک تہائی حصہ باقی رہتا ہے اس دنیاوی آسمان پر نازل ہوتا ہے اور یہ اعلان کرتا ہے۔
‘‘کون ہے جو مجھے پکارے کہ میں اسے جواب دوں ۔ کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تا میں اسے عطا کروں ، اور کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تا میں اسے بخش دوں ۔ (صحیح مسلم کتاب صلوۃ المسافرین باب الترغیب فی الدعا والذکر فی آخراللیل)
آنحضرت ﷺ رات کے وقت اس قدر دعائیں کرتے اور اس قدر لمبی نماز پڑھتے کہ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ بعض دفعہ کھڑے کھڑے آپؐ کے پاؤں متورم ہوجاتے اور پھٹنے لگتے۔ (بخاری کتاب التہجدباب قیام النبیﷺ)
ان کی شان تو اور ہے
رات کا وقت ہے ۔ حضرت عائشہؓ کی آنکھ کھلتی ہے وہ آپؐ کو اپنے بستر پر نہیں پاتیں ۔ وہ کہتی ہیں ‘‘ ایک رات (میری آنکھ کھلی) تو میں نے حضورؐ کو اپنے بستر پر نہ پایا۔ مجھے خیال آیا کہ حضورؐ مجھے چھوڑ کر کسی اور بیوی کے پاس چلے گئے ہیں ۔ پھر میں حضورؐ کو تلاش کرنے لگی تو کیادیکھتی ہوں کہ حضورؐ (نماز میں ) رکوع میں ہیں (یاشاید) آپؐ ا س وقت سجدہ کر رہے تھے اور یہ دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ تو اپنی تمام تعریفوں کے ساتھ ہر قسم کی بزرگی کاحامل ہے( تو میرا رب ہے) تیرے سوا اور کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپؐ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اے اللہ جو کچھ میں لوگوں سے چھپ کر کرتاہوں اور جو کچھ میں ان کے سامنے کرتا ہوں ان میں سے ہر عمل کو اپنی رحمت اور مغفرت سے ڈھانپ لے۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ مَیں نے حضور کو جب (نماز میں ) اس طرح اپنے مولیٰ کے حضور دعا کرتے دیکھا تو مجھے اپنی حالت پر افسوس ہوا اور میں نے دل ہی دل میں کہا تم کیاسمجھ بیٹھیں خدارا ان کی توشان ہی کچھ اور ہے۔ (نسائی کتاب عشرۃ ا لنساء باب ا لغیرۃ وکتاب ا لصلوٰۃ باب ا لدعا ء فی السجود)
عجیب بات
حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ آپ مجھے آنحضور ﷺ کی کوئی ایسی بات بتائیں جو آپ کوبہت ہی عجیب معلوم ہوتی ہو۔ اس پر حضرت عائشہؓ رو پڑیں اور ایک لمبے عرصہ تک روتی رہیں اور جواب نہ دے سکیں پھر فرمایا کہ آپؐ کی تو ہر بات ہی عجیب تھی کس کاذکر کروں اور کس کا نہ کروں ۔
ایک رات میرے ہاں باری تھی حضورؐ میرے پاس تشریف لائے بستر میں داخل ہوئے اور فرمایا اے عائشہ کیا مجھے اِس بات کی اجازت دیں گی کہ مَیں اپنے رب کی عبادت میں یہ رات گزاروں۔
میں نے عرض کیا یا رسول اللہ یقینا مجھے تو آپ کا قُرب پسند ہے اور آپؐ کی خوشنودی مقصود ہے میں آپؐ کو خوشی سے اجازت دیتی ہوں۔ اس پر حضور اٹھے اور گھر میں لٹکے ہوئے ایک مشکیزہ کی طرف گئے اور وضو کیا پھر آپؐ نماز پڑھنے لگے اور قرآن کا کچھ حصہ تلاوت فرمایا۔ آپؐ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی پھر آپؐ بیٹھ گئے اور خدا کی حمد اور تعریف کی اور پھر رونا شروع کردیا پھر آپؐ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور پھر رونے لگے یہاں تک میں نے دیکھا کہ آپؐ کے آنسوؤں سے زمین تر ہوگئی اور اسی حال میں وہ رات گزر گئی اور جب صبح کے وقت حضرت بلالؓ نماز کے لئے آپؐ کو بُلانے آئے تو اس وقت بھی آپؐ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ رو رہے ہیں کیا آپؐ کے متعلق اللہ نے یہ خوشخبری نہیں دی وَقَدْغَفَرَاللہ لَکَ مَاتَقدَّم مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ پھر آپ کیوں روتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ‘‘اے بلال کیامیں خداتعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ۔ (تفسیرکشاف زیرِآیت ان فی خلق السمٰوٰت والارض۔ ۔ ۔ )
حسن و طوالت کا نہ پوچھ
حضرت ابو سلمہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ رسول کریم ﷺ رمضان میں رات کو کتنی رکعات پڑھا کرتے تھے۔ انہوں نے فرمایا ‘‘رسول کریم ﷺ رمضان اور اس کے علاوہ بھی رات کو گیارہ رکعات سے زائد نہیں پڑھتے تھے۔ پہلے چار رکعات پڑھتے اور ان کے حسن اور طوالت کے بارہ میں نہ پوچھ۔ پھر چار رکعات پڑھتے اور ان کے حسن اور طوالت کا بھی کیا کہنا’’۔
حضرت عائشہؓ کہتی ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں ۔ فرمایا ‘‘اے عائشہ میری آنکھیں بظاہر سوتی ہیں مگر میرا دل نہیں سوتا’’۔(بخاری کتاب التہجد باب قیام النبی با لیل)