شمائل محمد صلی اللہ علیہ وسلم
1 ۔ حسن مجسم
ظاہری حُسن کا بے مثال نمونہ
حضرت حسنؓ بن علیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے ماموں حضرت ہند بن ابی ھالہؓ سے آنحضرت ﷺ کا حلیہ پوچھا کیونکہ وہ آنحضرت ﷺ کاحلیہ بیان کر نے میں بڑے ماہر تھے اور میں چاہتا تھا کہ وہ میرے پاس حضورؐ کے حلیہ کے متعلق ایسی باتیں بیان کریں جنہیں میں پلے باندھ لوں ۔ حضرت حسنؓ فرماتے ہیں کہ میرے ماموں نے حضورؐ کا حلیہ مجھ سے کچھ یوں بیان فرمایا آنحضرت ﷺ کی آنکھوں اور آپؐ کے سینہ میں ایسی کشش تھی اور ایسا حسن تھا کہ جو دیکھنے والوں کو مرعوب کرلیتا تھا۔ آپؐ کا چہرہ مبارک بھرا ہواتھا۔ شرافت اور عظمت کے آثار اس پر نمایاں تھے اور رعب و وجاہت اس سے ٹپکی پڑتی تھی۔ وہ چاند کی طرح چمکتا تھا اور حسن اس میں موجیں مارتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ آپؐ نہ تو کوتا ہ قد تھے نہ حد سے زیادہ لمبے بلکہ آپؐ کا قد بہت مناسب اور درمیانہ تھا۔ سربڑا تھا بال گھنے تھے جو کانوں کی لو تک پہنچتے تھے لیکن اس سے نیچے نہیں گرتے تھے ۔ ان میں قدرتی طور پر ایسا سنوار پایا جاتا تھا کہ وہ کبھی بھی بکھرتے یا پراگندہ نہیں ہوتے تھے اور انہیں کنگھی کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ بعض دفعہ آپؐ کے بالوں میں خود بخود مانگ پڑ جاتی تھی جو نمایاں ہوتی تھی ورنہ حضورؐ خود عام طور پر بالوں میں مانگ نہیں نکالتے تھے۔آپ کا رنگ سفید اور کھلتا ہوا تھا۔ پیشانی کشادہ تھی۔ اَبرو باریک لیکن بھرے ہوئے لمبے ہلالی تھے۔ دونوں اَبروؤں کے درمیان فاصلہ تھا۔ غصہ کی حالت میں اَبروؤں کے اس درمیانی فاصلہ میں ماتھے پر ایک رگ ابھر کر نمایاں ہوجاتی تھی۔ ناک پتلی اور کھڑی ہوئی تھی جو سرسری نظر سے دیکھنے والوں کو اصل سے زیادہ اٹھی ہوئی نظر آتی تھی۔ اس پر نور چھلکتا تھا۔ داڑھی گھنی تھی۔ رخسار نرم اور ملائم تھے۔ دہانہ کشادہ تھا۔ دانت خوب چمکتے تھے وہ ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے نہیں تھے بلکہ ان ایک میں قدرتی فاصلہ تھا جو بہت بھلا معلوم ہوتا تھا۔ اور آپؐ کی لمبی گردن بس اس کا حُسن نہ پوچھو، اسے تو خدا نے اپنے ہاتھ سے گھڑا تھا اور وہ چاند کی طرح چمکتی تھی۔
جسم کی عمومی بناوٹ بہت موزوں تھی۔ وہ بھرابھرا لیکن بہت متناسب تھا۔ پیٹ کمر کے ساتھ لگا ہوا تھا اور سینہ پیٹ کے ساتھ ہموار تھا۔ آپ کا سینہ چوڑا اور فراخ تھا۔ آپؐ کے جوڑ مضبوط بھرے ہوئے اور نمایاں تھے۔
جلد چمکتی ہوئی نازک اور ملائم تھی۔ چھاتی اور پیٹ پر بال نہیں تھے ہاں بالوں کی ایک باریک دھاری سینے کے نیچے سے ناف تک چلی گئی تھی۔ سینہ کے اوپر کے حصہ اور کاندھوں پر اسی طرح کلائی سے کہنیوں تک ہاتھوں پر خوب بال تھے۔ ہاتھ(یعنی کلائی سے کہنیوں تک بازوؤں کے حصے) لمبے تھے دست چوڑے تھے انگلیاں لمبی تھیں ہاتھ اور پاؤںنرم اور گوشت سے خوب بھرے ہوئے تھے۔ تلوے زمین کے ساتھ ہموار نہیں تھے بلکہ درمیان سے ان میں خم تھا۔ پیر ایسے چکنے اور ملائم تھے کہ جب ان پر پانی پڑتا تھا تو ٹھہرتا نہیں تھا فوری بہہ جاتاتھا۔
چال ایسی سبک تھی جیسے ڈھلوان پر سے اتررہے ہوں لیکن بڑی ہی پروقار ۔ اور باوجود تیز ی کے قدم زمین پر ٹھہراؤ سے پڑتا تھا۔چہرہ اٹھا کر نہیں چلتے تھے ، قدموں پر نگاہ رکھ کر چلتے تھے ‘اکڑ کر اور گھسٹتے نہیں تھے۔ قدم اٹھا کر چلتے تھے۔ جب کسی طرف رخ پھیرتے تھے تو پورا رخ پھیرتے تھے۔ نظر ہمیشہ نیچی رکھتے تھے یوں لگتا جیسے فضا کی نسبت زمین پر نظر زیادہ پڑتی تھی۔ عادتاً نیم وانظروں سے نگاہ ڈالتے اور جب صحابہ کے ساتھ چل رہے ہوں تو ہمیشہ انہیں اپنے سے آگے رکھتے تھے۔ جب کسی سے آمنا سامنا ہوتا تو ہمیشہ آپؐ ہی سلام میں پہل کیا کرتے تھے۔’’ (شمائل الترمذی باب فی خلق رسول اللہؐ )
دوسری روایتوں میں آتا ہے کہ آپؐ کی آنکھیں بہت خوبصورت اور سیاہ تھیں ۔ سرمہ نہ بھی لگائے ہوئے ہوں تو لگتا یہی تھا کہ سرمہ آنکھوں میں پڑا ہوا ہے ۔ آنکھوں کی سفیدی میں ہلکی سی سرخی بھی جھلکتی تھی۔ چہرہ مبارک پر ہمیشہ بشاشت ہوتی تھی اور مسکراہٹ بکھری رہتی تھی۔ فرفر کرکے کلام نہیں کرتے تھے بلکہ ٹھہر ٹھہر کر گفتگو فرماتے تھے۔ گفتگو میں سمجھانے کا انداز نمایاں ہوتا تھااور بات کو اکثر دہرایا کرتے تھے تا کہ دوسرے کے ذہن نشین ہوجائے۔
کوہ وقار تھے کسی ایسی حرکت کا سرزد ہونا ناممکن تھا جو دوسروں میں کراہت پیدا کرے۔ ہر ادا دل کو موہ لینے والی تھی۔ ہر انداز میں حسن ٹپکتا تھا۔آپ نہایت پُرکشش شخصیت کے مالک تھے۔ زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہ تھا جس میں حسن نے اپنا کمال نہ دکھایا ہو۔ چہرہ حسین تھا جسم مرقع حسن تھا۔ انداز بیاں سحرکن تھا۔ نگاہ مبارک اٹھتی تھی تو فضا میں حسن بکھر جاتا تھا۔ اٹھنا بیٹھنا سونا۔ آپؐ کی مجلس آپؐ کی خلوت سب کچھ ہی تو حسن میں ڈوبا ہوا تھا۔ یہ تو ایسی داستان ہے جس کا بیان ختم نہیں ہوسکتا۔
چاند سے زیادہ حسین
حضرت جابر بن سمرہؓ کہتے ہیں کہ ہم باہر کھلے میدان میں بیٹھے تھے حضورؐ ہمارے درمیان تشریف فرما تھے اور ایک سرخ لباس زیب تن کئے ہوئے تھے۔ چاندنی رات تھی چودھویں کا چاند تھا۔ خوب روشن بڑا حسین، لیکن میری نگاہ بار بار حضورؐ کے چہرہ کی طرف اٹھتی تھی۔ حضورؐ آج بہت ہی پیارے لگ رہے تھے۔ حضورؐ کا حسن تو ہمیں ہمیشہ ہی گھائل کئے رکھتا تھا لیکن آج تو یہ کچھ اور ہی رنگ دکھا رہا تھا۔ میں سوچتا تھا کیا اس چہرہ سے زیادہ اور کوئی چیز حسین ہوسکتی ہے۔ پھر میری نگاہ چاند پر پڑی پھر میں نے حضورؐ کے چہرہ کو دیکھا پھر چاند کو دوبارہ دیکھاپھر حضور کے رخ پر نگاہ گڑ گئی۔ اف!آپؐ کتنے حسین لگ رہے تھے میں نے کہا نہیں اے چاند تیرا حسن اس حسن کے آگے ماند پڑگیا ہے۔ (شمائل الترمذی باب خلق رسول اللہ)