شمائل محمد صلی اللہ علیہ وسلم
32 ۔ خدمت والدین
آنحضرت ﷺ کے والد محترم تو آپ کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہوچکے تھے۔ اور آپ چھ سال کے تھے کہ آپ کی والدہ محترمہ بھی رحلت فرماگئیں ۔ اس طرح حضور ﷺ کو تقدیرِ الٰہی کے ماتحت والدین کی براہ راست خدمت کا موقع تو نہیں ملا مگر ان کے لئے آپ کے دِل میں محبت کے بے پناہ جذبات تھے جن کے ماتحت آپ مسلسل درد سے ان کے لئے دعا کرتے رہے۔
مگر ان کی خدمت کے جذبہ کی تسکین آپ نے رضاعی والدین کی خدمت کرکے حاصل کی۔ اور یہ نمونہ چھوڑا کہ اگر اصلی والدین زندہ ہوتے تو آپ ان کی خدمت میں کیا کیا کسر نہ اٹھا رکھتے۔
رضاعی ماں کی خدمت
حضرت اسامہؓ بیان کرتے ہیں کہ:۔
آنحضرت ﷺ کی رضاعی والدہ حلیمہ مکہ میں آئیں او رحضور سے مل کر قحط اور مویشیوں کی ہلاکت کاذکر کیا۔ حضور ﷺ نے حضرت خدیجہ سے مشورہ کیا اور رضاعی ماں کو چالیس بکریاں اور ایک اونٹ مال سے لدا ہوا دیا۔ (طبقات ابن سعد جلداوّل صفحہ113بیروت۔1960ئ)
قیدیوں کی رہائی
جنگِ حنین میں بنو ہوازن کے قریباً چھ ہزار قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔ ان میں حضرت حلیمہ کے قبیلہ والے اور ان کے رشتہ دار بھی تھے جو وفد کی شکل میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور کی رضاعت کا حوالہ دے کر آزادی کی درخواست کی ۔ آنحضرت ﷺ نے انصار اور مہاجرین سے مشورہ کے بعد سب کو رہا کردیا۔ (طبقات ابن سعد جلداول صفحہ114بیروت1960ئ)
بہت تعظیم کی
حضرت ابوالطفیلؓ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے بعد حضورؐ جعرانہ مقام پر گوشت تقسیم فرما رہے تھے کہ ایک عورت آئی اور حضورؐ کے قریب چلی گئی حضور نے اس کی بہت تعظیم کی اور اس کے لئے اپنی چادر بچھادی۔ میں نے پوچھا یہ عورت کون ہے تو لوگوں نے کہا یہ حضور کی رضاعی والدہ ہیں ۔ (سنن ابوداؤد کتاب الادب باب برالوالدین)
رضاعی والد
ایک بار حضور ؐ تشریف فرما تھے کہ آپ کے رضاعی والد آئے۔ حضورؐ نے ان کے لئے چادر کا ایک پلّو بچھا دیا۔ پھرآپ کی رضاعی ماں آئیں تو آپ نے دوسرا پلّو بچھا دیا۔ پھر آپ کے رضاعی بھائی آئے تو آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کو اپنے سامنے بٹھالیا۔ (سنن ابوداؤد کتاب الادب باب برالوالدین)