شمائل محمد صلی اللہ علیہ وسلم
4 ۔ خشیت الٰہی
بدر میں تضرع
بدر کے دوران جب کہ دشمن کے مقابلہ میں آپؐ اپنے جاں نثاربہادروں کو لے کر کھڑے ہوئے تھے۔ تائید الٰہی کے آثار ظاہرتھے۔کفار نے اپناقدم جمانے کے لئے پختہ زمین پر ڈیرے لگائے تھے اور مسلمانوں کے لئے ریت کی جگہ چھوڑ دی تھی لیکن خدا نے بارش بھیج کر کفار کے خیمہ گاہ میں کیچڑ ہی کیچڑ کردیااور مسلمانوں کی جائے قیام مضبوط ہوگئی۔ اسی طرح اور بھی تائیدات سماویہ ظاہرہورہی تھیں ۔ لیکن باوجود اس کے اللہ تعالیٰ کا خوف ایسا آنحضرتؐ پرغالب تھاکہ سب وعدوں اور نشانات کے باوجود اس کے غنا کو دیکھ کر گھبراتے تھے اور بے تاب ہو کر اس کے حضور میں دعا کرتے تھے کہ مسلمانوں کو فتح دے۔ آپؐ یہ دعا کر رہے تھے اور اس الحاح کی کیفیت میں آپؐ کی چادر بار بارکندھوں سے گر جاتی تھی۔
الَلّٰھمّ اِنّی اَنْشُدُ عَھْدَکَ وَ وَعْدَکَ اللّٰھُمَّ انَتھْلِکْ ھٰذِہِ الْعِصاَبَۃُ مِنْ اَھْلِ الَاِسْلَامِ لَاُ تُعْبَدُ فِی الْارض۔ (تاریخ طبری)
اے میرے خدا اپنے وعدہ کو اپنی مدد کو پورا فرما۔ اے میرے اللہ اگر مسلمانوں کی یہ جماعت آج ہلاک ہوگئی تو دنیا میں تجھے پوجنے والا کوئی نہیں رہے گا۔
اس وقت آپؐ اس قدر کرب کی حالت میں تھے کہ کبھی آپؐ سجدہ میں گرجاتے اور کبھی کھڑے ہو کر خدا کو پکارتے تھے اور آپؐ کی چادر آپؐ کے کندھوں سے گر پڑتی تھی۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں مجھے لڑتے لڑتے آنحضرتؐ کاخیال آتا اور میں دوڑ کے آپؐ کے پاس پہنچ جاتاتو دیکھتا کہ آپؐ سجدہ میں ہیں اور آپؐ کی زبان پر یاحي یا قیوم کے الفاظ جاری ہیں ۔ حضرت ابوبکرؓ جوش فدائیت میں آپؐ کی اس حالت کو دیکھ کر بے چین ہوجاتے اور عرض کرتے یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ گھبرائیں نیںی ۔ اللہ ضرور اپنے وعدے پورے کرے گا مگر اس مقولہ کے مطابق کہ ‘‘ہرکہ عارف تراست ترساں تر’’
برابر دعا و گریہ و زاری میں مصروف رہے۔ آپؐ کے دل میں خشیت الٰہی کایہ گہرا احساس مضمر تھا کہیں خداکے وعدوں میں کوئی ایسا پہلو مخفی نہ ہو جس کے عدم علم سے تقدیر بدل جائے۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد۔ باب فی درع النبی)