شمائل محمد صلی اللہ علیہ وسلم
40 ۔ دشمنوں سے عفو ودرگزر
کوئی مواخذہ نہیں
23سالہ ظلم کے دور کے بعد جب آپؐ فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہورہے تھے اور خدا کے حضور آپؐ کی گردن عاجزی سے جھکتے جھکتے آپ کی اونٹنی کو جالگی تھی۔ آج آپؐ کا دل خدا کی حمد سے بھرا ہوا تھا اور آج بھی وہ ایسا ہی صاف تھا۔ آج بھی وہ خدا کے بندوں کے لئے اسی طرح محبت سے پر تھا جس طرح تیرہ سال قبل جب آپؐ اپنے عزیز شہر کو چھوڑنے پر مجبور کردیئے گئے تھے۔ اس وقت آپؐ بظاہر کمزور تھے اور آج آپؐ کے پاس غلبہ اور طاقت تھی اس لئے آج کفار مکہ کے دل خائف تھے لیکن ان کے دل کی چھپی ہوئی آواز بھی یہی تھی کہ محمدؐ تو مجسم رحم ہے۔ اس لئے ابن عباسؓ کی حدیث کے مطابق جب حضورؐ مکہ فتح کرچکے تو آپ ؐ منبرپر چڑھے اپنے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر اہل مکہ سے کہا تمہاراکیا گمان ہے کہ میں تم سے کیا سلوک کروں گا اور تم کیا کہتے ہو کہ تم سے کیا سلوک ہونا چاہئے توانہوں نے جواب دیا کہ ہم تو آپ سے نیکی کی امید رکھتے ہیں اور ہم یہی کہتے ہیں کہ آپ ہم سے نیک سلوک کریں ۔
آپ ہمارے معزز چچازاد ہیں اور اس وقت آپؐ کو قدرت اور غلبہ حاصل ہے۔اس پرآپؐ نے فرمایا میں (بھی) تم سے (وہی) کہتا ہوں (جو میرے بھائی یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا) کہ لَاَتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوَمَ
آج تم پر کوئی ملامت نہیں ۔ آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا۔(میں نے تمہیں معاف کیا) اللہ تمہیں معاف کرے۔ وہ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ (تفسیر درِ منثور۔ سورۃ یوسف)
زہر دینے والی عورت کو معافی
فتح خیبر کے موقع پر یہود نے رسول خدا کو زہر دے کر قتل کرنے کا منصوبہ بنایا اور ایک سریع الاثر زہر بہت بڑی مقدار میں ران کے گوشت میں پکا کر حضور ؐ کو سلام بن مشکم کی بیوی زینب کے ذریعہ تحفہ بھجوادیا گیا۔ حضور ؐ کو یہ کھانا پیش کیا گیا۔ آپؐ نے پہلا نوالہ منہ میں ڈالا ہی تھا کہ زہر کا احساس ہوگیا۔ ایک صحابی حضرت بشرؓ نے لقمہ نگل لیا جو کچھ عرصہ بعد اس زہر سے شہید ہوگئے۔ رسول اللہؐ نے اس عورت اور دوسرے یہودیوں کو بلایا اور پوچھا کہ اے یہودیو! سچ سچ بتاؤ تم نے اس گوشت میں زہر کیوں ڈالا؟ وہ عورت کہنے لگی ہم نے کہا اگر آپؐ سچے نہیں تو آپؐ سے نجات مل جائے گی اور اگر سچے ہیں تو زہرآپؐ پر اثر نہیں کرے گا۔ رسول کریمؐ نے بڑے جلال سے فرمایا خدا تعالیٰ تمہاری قتل کی تمام کوششوں کے باوجود تمہیں ہرگز میرے قتل کی طاقت نہیں دے گا۔ (السیرۃ المحمد یہ صفحہ329)
میرے آقا جب مرض الموت میں آخری سانس لے رہے تھے تو حضرت عائشہؓ سے فرمانے لگے اے عائشہ! میں اب تک اس زہر کی اذیت محسوس کرتا رہا ہوں جو خیبر میں یہودیوں نے مجھے دیا تھا اور اب بھی میرے بدن میں اس زہر کے اثر سے کٹاؤ اور جلن کی کیفیت ہے۔ مگر رسول اللہؐ اپنی ذات کے لئے کسی سے انتقام نہیں لیا کرتے تھے۔ آپؐ نے اس پر بھی یہود کو بخش دیا اور اس عورت کو معاف کردیا۔(صحیح بخاری کتاب المغازی باب مرض النبیؐ وفاتہ)