شمائل محمد صلی اللہ علیہ وسلم
41 ۔ دشمن کے مذہبی حقوق کا خیال
تورات واپس کرادی
فتح خیبر کے دوران تورات کے بعض نسخے بھی مسلمانوں کو ملے ۔یہودی آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ ہماری کتاب مقدس ہمیں واپس کی جا ئے اور رسول کریم ﷺنے صحابہ کو حکم دیا کہ یہود کی مذہبی کتابیں ان کو واپس کر دو ۔ مذہبی رواداری کی یہ کتنی عظیم الشان مثال ہے۔ (السیرۃ الحلبیہ جلد3صفحہ49)
مشرکوں کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا
طائف کا ایک دور وہ تھا کہ آنحضرتؐ تبلیغ اسلام کے لئے پہنچے تو آپؐ کولہولہا ن کر دیا گیا۔ دوسرا دور یہ تھا کہ ۸ھ میں طائف اسلام کی قوت سے مرعو ب ہو چکا تھا چنا نچہ اہل طائف کا ایک وفد حضورؐ کی خدمت میں پہنچا۔ اس وفد کا رئیس عبد یا لیل تھا۔ آنحضرتؐ نے جب پہلی مرتبہ طا ئف میں قدم رکھا تھا تو یہی عبد یا لیل آپؐ کی ایذا ء رسانی میں پیش پیش تھا اور آج ایک وفد کا رئیس بن کر جھکی ہوئی گردن اور جھکی ہوئی آنکھ کے ساتھ حاضر دربار تھا۔
لیکن معلوم ہے اس بدترین بد تہذیب اور آزار رساں دشمن کے ساتھ رسول اللہؐ نے کیا برتاؤ کیا اس کافر کو آنحضرتؐ نے دنیا کے سب سے مقدس مقام مسجد نبوی میں اتارا ۔ صرف اسی کو نہیں اس کے ساتھیوں کو بھی صحن مسجد میں خیمے نصب کرا دئیے گئے ۔ اور یہ لوگ بلا تامل اس میں ٹھہرائے گئے اور ان کے ساتھ لطف و کرم کا برتاؤ کیا گیا۔
جب اس وفد کے لئے آپؐ نے خیمے نصب کرائے تو صحابہؓ نے عرض کی یا رسول اللہ یہ پلید مشرک قوم ہے مسجد میں ان کا ٹھہرانا مناسب نہیں ۔ آپؐ نے فرمایا ا س آیت میں دل کی بلندی کی طرف اشارہ ہے جسموں کی ظاہری گندگی مراد نہیں اور نہ کوئی انسان ان معنوں میں پلید ہے کیونکہ سب انسان پاک ہیں اور وہ ہر مقدس سے مقدس جگہ پر جا سکتے ہیں ۔ (احکام القران جلد ۳ صفحہ ۹۰۱)
مسجد نبوی میں عیسائی عبادت
جب نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد بارگاہ رسالت میں حاضر ہواتو اسے آپؐ نے مسجد نبوی کا مکین بنا لیا ۔ یہی نہیں بلکہ جب مسیحی عبادت کا وقت آیا اور ان لوگوں نے مسجد میں نماز ادا کرنا چا ہی تو صحابہ کرامؓ نے منع کیا لیکن رسالت مآب نے اجازت مرحمت فرمائی (اسباب النزول صفحہ۳۵)۔یہود کا اسلام اور داعی اسلام کے ساتھ کیا رویہ تھا یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ۔ یہ یہود بھی نجرانی عیسائیوں سے ملنے مسجد نبوی آیا کرتے تھے اور گھنٹوں بات چیت کیا کرتے تھے ۔ ان کی آمد پر بھی کسی طرح پابندی عائد نہیں کی گئی۔
ابن اسحاق کہتے ہیں جب نصاریٰ کا گروہ آپ کی خدمت میں حاضرہوا تو آپؐ مسجد میں تشریف رکھتے تھے اور عصر کی نماز پڑھ کر بیٹھے تھے۔ ان کی نماز کا بھی وقت آیا یہ مسجد سے جانے لگے تو آپؐ نے فرمایا نماز یہیں پڑھ لو ۔ تو ان لوگوں نے مشرق کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ۔