شمائل محمد صلی اللہ علیہ وسلم
10 ۔ دعوت الی اللہ
اقرباء کو دعوت اسلام
جب یہ آیت نازل ہوئی فَاصْدَعْ بِمَا تؤمَرُ
‘‘یعنی اے رسول!جو حکم تجھے دیا گیا ہے وہ کھول کھول کر لوگوں کو سنا دے۔’’
اور اس کے قریب ہی یہ آیت اتری کہ:۔ اَنْذِرْعَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ۔ یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں کو ہوشیار و بیدار کر۔’’
جب یہ احکام اترے تو آنحضرت ﷺ کوہِ صفا پر چڑھ گئے اور بلند آواز سے پکار کر اور ہر قبیلہ کا نام لے لے کر قریش کو بلایا۔جب سب لوگ جمع ہوگئے۔ تو آپؐ نے فرمایا:۔اے قریش! اگر میں تم کو یہ خبر دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بڑا لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنے کو تیار ہے توکیا تم میری بات کو مانو گے؟’’ بظاہر یہ ایک بالکل ناقابل قبول بات تھی مگر سب نے کہا۔” ہاں ہم ضرور مانیں گے کیونکہ ہم نے تمہیں ہمیشہ صادق القول پایا ہے۔ آپؐ نے فرمایا ۔” توپھر سنو! میں تم کو خبر دیتا ہوں کہ اللہ کے عذاب کا لشکر تمہارے قریب پہنچ چکا ہے ۔ خدا پر ایمان لاؤ تا اس عذاب سے بچ جاؤ۔’’ جب قریش نے یہ الفاظ سنے تو کھلکھلا کر ہنس پڑے اور آپؐ کے چچا ابولہب نے آپؐ سے مخاطب ہو کر کہا۔ تَبًّالَکَ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا۔’’ محمدتو ہلاک ہو۔ اس غرض سے تو نے ہم کو جمع کیا تھا۔’’ پھر سب لوگ ہنسی مذاق کرتے ہوئے منتشر ہوگئے۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر۔ سورۃا لھب)
اقرباء کی دعوت
انہی دنوں میں آنحضرت ﷺ نے حضرت علیؓ سے ارشاد فرمایا کہ ایک دعوت کا انتظام کرو اور اس میں بنو عبدالمطلب کو بلاؤ۔ تا کہ اس ذریعہ سے ان تک پیغام حق پہنچایا جاوے چنانچہ حضرت علیؓ نے دعوت کا انتظام کیا اور آپؐ نے اپنے سب قریبی رشتہ داروں کو جو اس وقت کم و بیش چالیس 40نفوس تھے اس دعوت میں بلایا۔ جب وہ کھانا کھا چکے تو آپؐ نے کچھ تقریر شروع کرنی چاہی مگر بدبخت ابولہب نے کچھ ایسی بات کہہ دی جس سے سب لوگ منتشر ہوگئے۔ اس پر آنحضرت نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ ‘‘یہ موقعہ تو جاتا رہا۔ اب پھر دعوت کا انتظام کرو۔’’چنانچہ آپؐ کے رشتہ دار پھر جمع ہوئے اور آپؐ نے انہیں یوں مخاطب کیا کہ ‘‘اے بنو عبدالمطلب! دیکھو مںں تمہاری طرف وہ بات لے کر آیا ہوں کہ اس سے بڑھ کر اچھی بات کوئی شخص اپنے قبیلہ کی طرف نہیں لایا۔ میں تمہیں خدا کی طرف بلاتا ہوں ۔ اگر تم میری بات مانو تو تم دین و دنیا کی بہترین نعمتوں کے وارث بنو گے۔ اب بتاؤ اس کام میں میرا کون مدد گار ہوگا؟ سب خاموش تھے اور ہر طرف مجلس میں ایک سناٹا تھا کہ یکلخت ایک طرف سے ایک تیرہ سال کا دبلا پتلا بچہ جس کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا اٹھا اور یوں گویا ہوا۔” گو میں سب میں کمزور ہوں اور سب سے چھوٹا ہوں مگر میں آپ کا ساتھ دوں گا’’ یہ حضرت علی کی آواز تھی ۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت علیؓ کے یہ الفاظ سنے تو اپنے رشتہ داروں کی طرف دیکھ کر فرمایا۔ ‘‘اگر تم جانو تو اس بچے کی بات سنو اور اسے مانو۔’’ حاضرین نے یہ نظارہ دیکھا تو بجائے عبرت حاصل کرنے کے سب کھلکھلاکرہنس پڑے اور ابولہب اپنے بڑے بھائی ابو طالب سے کہنے لگا۔ لواب محمدؐ تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی پیروی اختیار کرو۔ اور پھر یہ لوگ اسلام اور آنحضرت ﷺ کی کمزوری پر ہنسی اڑاتے ہوئے رخصت ہوگئے۔’’ (تاریخ طبری جلد2صفحہ63مطبع استقامہ قاھرہ۔1939)