شمائل محمد صلی اللہ علیہ وسلم
19 ۔ دین کی راہ میں قربانیاں اور صبرواستقامت
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔
‘‘اللہ کی راہ میں جتنا مجھے ڈرانے کی کوشش کی گئی کسی اور کے لئے ایسی کوشش نہیں ہوئی۔ اور راہ مولیٰ میں جتنی اذیت مجھے دی گئی اتنی کسی اور کو نہیں دی گئی۔
اور مجھ پر تیس دن ایسے گزرے کہ میرے اور بلال کے لئے کوئی کھانا نہیں تھا جسے کوئی زندہ وجود کھا سکے سوائے معمولی سے کھانے کے جو بلال کی بغل کے نیچے آسکتا تھا۔ (جامع ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ حدیث نمبر2396)
اونٹنی کی بچہ دانی
ایک دفعہ آپؐ صحن کعبہ میں خدا تعالیٰ کے سامنے سربسجود تھے اور چند رؤسائِ قریش بھی وہاں مجلس لگائے بیٹھے تھے کہ ابوجہل نے کہا اس وقت کوئی شخص ہمت کرے تو کسی اونٹنی کی بچہ دانی لا کر محمدؐ کے اوپر ڈال دے چنانچہ عقبہ بن ابی معیط اٹھا اور ایک ذبح شدہ اونٹنی کی بچہ دانی لا کر جو خون اور گندی آلائش سے بھری ہوئی تھی آپؐ کی پشت پر ڈال دی اور پھر سب قہقہے لگا کر ہنسنے لگے۔ حضرت فاطمۃ الزہرؓ کو اس کا علم ہوا تو وہ دوڑی آئیں اور اپنے باپ کے کندھوں سے یہ بوجھ اتارا۔ تب جا کر آپؐ نے سجدہ سے سر اٹھایا۔ روایت آتی ہے کہ اس موقعہ پر آنحضرت ﷺ نے ان روسائِ قریش کے نام لے لے کر جو اس طرح اسلام کو مٹانے کے درپے تھے بددعا کی اور خدا سے فیصلہ چاہا۔ راوی کہتا ہے کہ پھر میں نے دیکھا کہ یہ سب لوگ بدر کے دن مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوکر وادی بدر کی ہوا کو متعفن کر رہے تھے۔(صحیح بخاری باب بنیان الکعبہ باب مالقی النبیؐ کتاب المغازی باب دعاء النبی علی کفارقریش)
پہلا شہید
ایک اور موقعہ پر آپؐ نے صحن کعبہ میں توحید کا اعلان کیا تو قریش جوش میں آکر آپؐ کے ارد گرد اکٹھے ہوگئے اور ایک ہنگامہ برپا کردیا۔ آپؐ کے ربیب یعنی حضرت خدیجہؓ کے فرزند حارث بن ابی ہالہ کواطلاع ہوئی تو وہ بھاگے آئے اور خطرہ کی صورت پاکر آپؐ کو قریش کی شرارت سے بچانا چاہا۔ مگر اس وقت بعض نوجوانان قریش کے اشتعال کی یہ کیفیت تھی کہ کسی بدباطن نے تلوار چلا کر حارث کووہیں ڈھیر کردیا۔ اور اس وقت کے شوروشغب میں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ تلوار چلانے والا کون تھا۔(الاصابہ ذکر حارث)
ایک دفعہ آپؐ ایک راستہ پر چلے جاتے تھے کہ ایک شریر نے برسرعام آپؐ کے سر پر خاک ڈال دی۔ ایسی حالت میں آپؐ گھر تشریف لائے۔ آپؐ کی صاحبزادی نے یہ دیکھا تو جلدی سے پانی لے کر آئیں اور آپؐ کا سر دھویا۔ اور زار زار رونے لگیں ۔ آنحضرت ﷺ نے ان کو تسلی دی اور فرمایا:۔
‘‘بیٹی رونہیں ۔ اللہ تیرے باپ کی خود حفاظت کرے گا اور یہ سب تکلیفیں دور ہوجائیں گی۔’’(تاریخ طبری جلد2صفحہ80مطبع استقامہ قاھرہ1939ء)