شمائل محمد صلی اللہ علیہ وسلم
39 ۔ ساتھیوں کا خیال
مشکلات میں شراکت
آنحضرت ﷺ سفر میں اپنے ہمراہیوں اور ساتھیوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اپنے آپ کو ان پر کوئی ترجیح نہ دیتے اور ان کے ساتھ مل کر مشکلات برداشت فرماتے۔آنحضرت ﷺ جب غزوہ بدر کیلئے مدینہ سے نکلے تو سواریاں بہت کم تھیں تین تین آدمیوں کے حصے میں ایک ایک اونٹ آیا۔ آنحضرت ﷺ خود بھی اس تقسیم میں شامل تھے اور آپ کے حصہ میں جو اونٹ آیا اس میں آپ کے ساتھ حضرت علیؓ اور حضرت ابولبابہؓ بھی شریک تھے اور سب باری باری سوا ر ہوئے۔ جب رسول کریم ﷺ کے اترنے کی باری آتی تودونوں جانثار عرض کرتے یا رسول اللہ ﷺ آپ سوار رہیں ہم پیدل چلیں گے مگر آپ فرماتے تم دونوں مجھ سے زیادہ پیدل چلنے کی طاقت نہیں رکھتے اور نہ میں تم دونوں سے زیاد ہ ثواب سے مستغنی ہوں ۔
(مسند احمدبن حنبل جلد1صفحہ411 المکتب الاسلامی للطباعہ و النشربیروت)
غلام سوا ر۔ آقاپیدل
حضرت عقبہ بن عامر جہنیؓ ایک مرتبہ سفر میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے۔ حضورؐ نے اپنی سواری بٹھا دی اور اتر کر فرمایا اب تم سوار ہوجاؤ۔ عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ کیسے ممکن ہے کہ میں آپ کی سواری پر سوار ہوجاؤں اور آپؐ پیدل چلیں ۔ حضور ﷺ نے پھر وہی ارشاد فرمایا اور غلام کی طرف سے وہی جواب تھا۔ حضور ﷺ نے پھر اصرار فرمایا تو اطاعت کے خیال سے سواری پر سوار ہو گئے اور حضور ﷺ نے سوار ی کی باگ پکڑ کر اس کو چلانا شروع کردیا۔(کتاب الولاۃ کندی بحوالہ سیرالصحابہ جلد2صفحہ216از شاہ معین الدین احمدندوی ادارہ اسلامیات لاہور)
سوار ہو جاؤ
حضور ﷺ ایک دفعہ سواری پر سوار ہو کر قباکی طرف جانے لگے۔ ابوہریرہؓ ساتھ تھے۔ حضورؐ نے ان سے فرمایا کیا میں تمہیں بھی سوار کرلوں انہوں نے عرض کیا جیسے حضورؐ کی مرضی تو فرمایا آؤ تم بھی سوار ہوجاؤ۔ حضرت ابوہریرہؓ نے سوا ر ہونے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئے اور گرتے گرتے حضور کو پکڑلیا اور حضورؐ کے ساتھ گرپڑے۔
حضورؐ پھر سوار ہوئے اور ابوہریرہؓ کو سوار ہونے کی دعوت دی مگر وہ دوسری دفعہ بھی حضورؐ کو لے کر گر پڑے۔ حضورؐ پھر سوار ہوئے اور ابوہریرہؓ سے پوچھا کیا تمہیں بھی سوار کرلوں تو کہنے لگے اب میں آپ کو تیسری دفعہ نہیں گراناچاہتا۔(المواہب اللدنیہ ۔ زرقانی جلد4صفحہ265دارلمعرفہ بیروت)
یہ واقعہ حضور کی صحابہ سے بے تکلفی ، بشاشت اور لطیف حس مزاح کا بہترین نمونہ ہے۔