شمائل محمد صلی اللہ علیہ وسلم
27 ۔ سادگی اور بے تکلفی
رسول اللہؐ کابستر
حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا بستر چمڑے کا تھا جس کے اندر کھجور کے باریک نرم ریشے بھرے ہوئے تھے۔ (صحیح بخاری کتاب الرقاق باب کیف کان عیش النبیؐ )
آخری لباس
حضرت ابوبُزدۃؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے ہمیں آنحضرت ﷺ کی موٹی کھدر کی چادر اور تہبند نکال کر دکھائی اور کہا کہ حضور ﷺ نے وفات کے وقت یہ کپڑے پہن رکھے تھے۔ (صحیح بخاری کتاب اللباس باب الاکسیۃ)
آخرت کا طالب
حضرت عمرؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مَیں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حضورؐ کے حجرہ میں حاضر ہوا حضورؐ ایک چٹائی پر تشریف فرما تھے مَیں بھی اُس چٹائی پر بیٹھ گیا اُس چٹائی پر صرف ایک چادر پڑی تھی اور گدا وغیرہ میں سے اس پر کچھ نہیں تھا اور میں نے دیکھا کہ حضورؐ کے جسدِمبارک پر چٹائی پر لیٹنے کی وجہ سے نشان پڑگئے تھے۔ پھر میری نگاہ حضورؐ کے کمرہ پر پڑی تو مجھے اُس چٹائی کے علاوہ وہاں صرف یہ چیزیں نظر آئیں ۔ ایک طرف ایک صاع (دوکلو) کے برابر کچھ جَو پڑے تھے اور کمرہ کے ایک کونہ میں ایک درخت کے کچھ پتے جن سے جانوروں کی کھالوں کورنگا جاتا تھا وہ پڑے تھے اور ایک تازہ کھال جسے ابھی رنگ کر تیار نہیں کیا گیا تھا وہ لٹک رہی تھی۔یہ دیکھ کر بے اختیار میری آنکھوں سے آنسوبہہ پڑے۔ حضورؐ نے اس حالت میں مجھے دیکھا تو فرمایا کہ اے ابن الخطاب تجھے رونا کیوں آگیا۔ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبیؐ میں کیوں نہ روؤں یہ چٹائی آپؐ کا بستر ہے اور آپؐ کے جسم پراس کے نشان پڑگئے ہیں اور آپؐ کی ساری دولت بس یہی ہے کچھ جَو کچھ پتے اور ایک غیر تیارشدہ کھال جو مجھے اِس کمرہ میں نظر آرہی ہے۔ یہ آپ ؐ کی حالت ہے اور ادھر قیصرو کسریٰ ہیں کہ دولت میں لوٹ رہے ہیں ۔ باغوں کے مالک ہیں ۔ دریاؤںپر قابض ہیں اور اللہ جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے آپؐ اس کے نبی ہیں ۔ اس کے برگزیدہ ہیں اور اُس کی نگاہ میں سب سے بڑھ کر ہیں اور اس کے باوجود آپؐ کی ساری دنیوی دولت بس یہی کچھ ہے جو اِس کمرہ میں ہے۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں جب حضورؐ نے میری یہ بات سنی تو فرمایا کہ اے ابن الخطاب کیا تجھے یہ بات پسند نہیں کہ قیصروکسریٰ کو اِس دنیا کی دولتیں دے دی جائیں اور ہمیں آخرت کی نعمتوں سے مالامال کردیا جائے۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے عرض کیا کہ کیوں نہیں یا رسول اللہؐ۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب ضجاع آل محمدؐ )