شمائل محمد صلی اللہ علیہ وسلم
20 ۔ شجاعت اور عزم
خطرہ میں سب سے آگے
حضرت انسؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سب انسانوں سے زیادہ خوبصورت تھے اور سب انسانوں سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات اہل مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا (کسی طرف سے کوئی آواز آئی تھی) لوگ آواز کی طرف دوڑے تو سامنے سے نبی کریمﷺ ان کو آتے ملے آپؐ بات کی چھان بین کرکے واپس آرہے تھے حضرت ابوطلحہؓ کے گھوڑے پر سوار تھے۔ گھوڑے کی پیٹھ ننگی تھی اور آپؐ نے اپنی گردن میں تلوار لٹکائی ہوئی تھی۔ لوگوں کو سامنے سے آتے دیکھا تو فرمایا ڈرو نہیں میں دیکھ آیا ہوں کوئی خطرہ کی بات نہیں ۔پھر آپؐ نے ابوطلحہ کے گھوڑے کے متعلق فرمایا ہم نے اس کو تیز رفتاری میں سمندر جیسا پایا۔ یا یہ فرمایا کہ یہ تو سمندر ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد باب الحمائل)
اشجع الناس
ابواسحاق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص حضرت برائؓ کے پاس آیا اور آپ سے پوچھا کہ اے ابوعمارہ کیا آپ لوگوں نے جنگ حنین کے موقع پر دشمن کے مقابل پر پیٹھ پھیرلی تھی تو انہوں نے جواب دیا کہ میں سب کے بارہ میں تو کچھ نہیں کہ سکتا لیکن میں آنحضرت ﷺ کے بارہ میں ضرور گواہی دوں گا کہ آپؐ نے دشمن کے شدید حملہ کے وقت بھی پیٹھ نہیں پھیری تھی۔پھر انہوں نے کہا اصل بات یہ ہے کہ ہوا زن قبیلہ کے خلاف جب مسلمانوں کا لشکر نکلا تھا انہوں نے یا تو بہت ہلکے پھلکے ہتھیار پہنے ہوئے تھے یعنی ان کے پاس زرہیں وغیرہ اور بڑا اسلحہ نہیں تھا اور ان میں بہت سے ایسے بھی تھے جو بالکل نہتے تھے لیکن اس کے مقابل پر ہوازن کے لوگ بڑے کہنہ مشق تیر انداز تھے۔ جب مسلمانوں کا لشکر ان کی طرف بڑھا توانہوں نے اس لشکر پر تیروں کی ایسی بوچھاڑ کردی جیسے ٹڈی دل کھیتوں پر حملہ کرتی ہے۔ اس حملہ کی تاب نہ لا کر مسلمان بکھر گئے لیکن ان کا ایک گروہ آنحضرت ﷺ کی طرف بڑھا۔ حضورؐ ایک خچر پر سوا ر تھے جسے آپؐ کے چچا ابوسفیان بن حارثؓ لگام سے پکڑے ہوئے ہانک رہے تھے۔
جب حضورؐ نے مسلمانوں کو اس طرح بکھرتے ہوئے دیکھا تو آپؐ کچھ وقفہ کے لئے اپنی خچر سے اترے اور اپنے مولیٰ کے حضور دعا کی۔ پھر آپؐ خچر پر سوار ہو کر مسلمانوں کو مدد کے لئے بلاتے ہوئے دشمن کی طرف بڑھے اور آپؐ یہ شعر پڑھتے جاتے تھے۔ اَنَا النّبِیُّ لَا کَذِبْ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
میں خدا کا نبی ہوں اور یہ ایک سچی بات ہے۔ لیکن ‘‘میری غیر معمولی جرات دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ میں کوئی فوق البشر چیز ہوں نہیں میں وہی عبدالمطلب کا بیٹا محمدہوں ۔’’
اور آپؐ یہ دعا کرتے جاتے تھے۔ اَللَّھُمَّ نَزِّلْ نَصْرَکَ
اے خدا اپنی مدد نازل کر
پھر حضرت برائؓ نے کہا کہ حضورؓ کی شجاعت کا حال سنو۔ جب جنگ جوبن پر ہوتی تھی تو اس وقت حضورؐ سب سے آگے ہوکر سب سے زیادہ بہادری سے لڑرہے ہوتے تھے اور ہم لوگ تو اس وقت حضور کو ہی اپنی ڈھال اور اپنی آڑ بنایا کرتے تھے اور ہم میں سے سب سے زیادہ وہی بہادر سمجھا جاتا تھا جو حضورؐ کے شانہ بشانہ لڑتا تھا۔ (صحیح مسلم کتاب الجہاد باب فتح مکہ)
عزم بے مثال
حضور ﷺ جنگ احد سے پہلے خواب میں دیکھ چکے تھے کہ آپؐ کے کسی عزیز کا نقصان ہوگا یا آپؐ کی ذات کو گزند پہنچے گا اور کچھ صحابی بھی شہید ہوں گے۔ آپ منشاء الہیٰ کے ماتحت صحابہ سے مشورہ کرتے ہیں ۔ نوجوان صحابہ جوش و اخلاص میں مدینہ سے باہر نکل کر لڑنے کا مشورہ دیتے ہیں ۔ حضور ﷺ ہتھیار پہن لیتے ہیں ۔ اب نوجوان صحابہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوچکا تھا اور وہ معذرت خواہ تھے لیکن خداکے نبیﷺنے فرمایا۔
‘‘نبی ہتھیار پہن کر اتارتا نہیں ۔’’
یہ تھی آپ کی بے مثال شجاعت اور یہی زندہ قوموں کا شیوہ ہونا چاہئے کہ جب عزم کرلیں تو پھر تذبذب کیا۔ (سیرت ابن ہشام جلد3صفحہ6)
اسے آنے دو
جنگ اُحد میں آپ شدید زخمی ہوئے۔ چہرہ مبارک لہولہان تھا۔ابی بن خلف ایک کافر مدت سے تیاری کررہا تھا۔ اس نے ایک گھوڑا پالا ہی اس لئے تھا۔
اس کو روزانہ جوار کھلاتا کہ اس پر چڑھ کر محمد ﷺ کو قتل کروں گا(نعوذباللہ) اس بدبخت کی نظر جب حضورؐ پر پڑی تو گھوڑے کو ایڑھ لگا کر آگے آیا اور یہ نعرہ لگایا اگر محمد(ﷺ) بچ جائیں تو میری زندگی عبث ہے۔ صحابہ نے یہ دیکھاتو حضور ﷺ اور اس کے درمیان حائل ہونا چاہا۔ حضورؐ نے فرمایا ہٹ جاؤ اسے آنے دو اور میرے زخمی آقا نے جن کے زخم سے ابھی خون رس رہا تھا نیزہ تھام کر اس کی گردن پر وار کیا۔ وہ چنگھاڑتا ہوا واپس مڑا۔ کسی نے کہا بھئی معمولی زخم ہے کیا چیختا اور واویلا کرتا ہے۔ اس نے کہا یہ معمولی زخم نہیں محمد(ﷺ) کا لگایا ہوا ہے۔ (سیرۃ ابن ہشام زیرعنوان قتل ابی بن خلف جلد3صفحہ89)